Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

موسمیاتی تبدیلی مارچ: ’بچوں کا مستقبل محفوظ بنانا چاہتے ہیں‘

مارچ کے ایک منتظم یاسر حسین کا کہنا ہے مارچ کا مقصد بچوں کے مستقبل کو محمفوظ بنانا ہے۔ فوٹو اردو نیوز
پاکستان کے مختلف شہروں میں جمعہ کے روز موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے آگاہی پھیلانے کے لیے مارچ کیا جائے گا۔ اس مقصد کے لیے مارچ ہی کیوں؟ اور مارچ کے شرکا اس سے کیا اہداف حاصل کرنا چاہتے ہیں؟
ان سوالوں کے جواب جاننے کے لیے ہم نے کراچی میں مارچ منعقد کرانے والے منتظمین سے بات کی ہے۔
کراچی کے رہائشی 28  سالہ یاسر حسین مارچ کے لیے خاصے پرجوش ہیں اور اسے کامیاب بنانے کے لیے پُرعزم ہیں۔ وہ کئی مہینوں سے اس اہم دن کے لیےدوستوں کے ساتھ سر جوڑے بیٹھے رہے۔
یاسر حسین نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ہمارے دو بنیادی مقاصد ہیں، ایک تو یہ کہ ہم پاپولر بیانیہ دینا چاہتے ہیں تاکہ عوام اور حکومت کو پتہ چل سکے کہ موسمیاتی تبدیلی سے کیا خطرناک نتائج نکلنے والے ہیں اور دوسرا یہ کہ حکومت کو ہماری التجا سنائی دے کہ وہ فوری اقدامات کرے۔‘
یاد رہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے 20 سے 27 ستمبر تک دنیا بھر میں ریلیاں نکالی جائیں گی۔ موسمیاتی تبدیلی سے متعلق اس تحریک کا آغاز سویڈن سے تعلق رکھنے والی بچی گریٹا تھنبرگ نے کیا تھا۔ انہوں نے رواں سال مئی میں مارچ کی تحریک شروع کی تھی جس میں دنیا بھر سے 14 لاکھ بچوں نے شرکت کی تھی۔ انہوں نے اس مارچ میں اعلان کیا تھا کہ اگلے مرحلے میں بڑوں کو بھی مارچ کی دعوت دیں گے۔ پاکستان میں منعقد ہونے والا مارچ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے 20 سے 27 ستمبر تک دنیا بھر میں ریلیاں نکالی جائیں گی (فوٹو:سوشل میڈیا)

یاسر حسن نے بتایا کہ وہ بچوں کے مستقبل کو محفوظ بنانا چاہتے ہیں۔ ’آج بچے اپنے سکول میں جب ماحولیاتی تبدیلی کے بارے میں پڑھتے ہیں اور یہ بات سنتے ہیں کہ دنیا ختم ہوجائے گی تو وہ ہم سے سوال کرتے ہیں کہ اگر دنیا ختم ہی ہونے والی ہے تو پھر ہمارے سکول جانے کا فائدہ ہی کیا ہے۔‘
یاسر سے جب پوچھا گیا کہ مارچ میں کون کون شریک ہوگا تو ان کا کہنا تھا کہ’ بچوں کی ایک بڑی تعداد اس مارچ کا حصہ ہوگی کیونکہ مستقبل انہی سے وابستہ ہے۔‘
یاسر درس و تدریس اور آرٹ سے وابستہ ہیں۔ انہوں نے سندھ میں کئی مقامات پر ان کیمپس کا بھی دورہ کیا ہے جہاں بارشوں،سیلاب یا قحط کی وجہ سے کئی لوگوں کو بے گھر ہونا پڑا۔
’ہمارے کراچی میں ابھی صرف 200 ملی لیٹر بارش ہوئی تو ہم نے دیکھا کہ شہری زندگی بالکل رک سی گئی۔ گذشتہ چند سالوں میں شدید گرمی پڑنے سے یہاں 1200 اموات ہوئیں۔ جب موسمیاتی تبدیلی میں تیزی آئے گی تو یہ نتائج سو گناہ بڑھ جائیں گے۔ سوچئےکہ تب کیا ہوگا؟ پورا کا پورا نظام ہی درھم برھم ہوجائے گا۔‘
اس سوال کے جواب میں کہ مارچ کو کراچی کے مشہور فرئیر ہال میں ہی کیوں منعقد کیا جارہا ہے، یاسر نے بتایا کہ ’ہم اس جگہ کو ہم اپنا ریفیوجی کیمپ بنانے جا رہے ہیں، ہمیں معلوم ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے کھانے کی اشیا کم پڑ جائیں گی، ہر طرف بیماریاں پھیلیں گی اور لوگوں کو ہسپتالوں میں جگہ بھی نہیں ملے گی۔‘

منتظمین کا کہنا ہے کہ مارچ اس لیے کیا جارہا ہے کیونکہ پاکستان پر موسمیاتی  تبدیلی کے زیادہ اثرات مرتب ہوں گے (فوٹو:اردو نیوز)

یاسر نے مزید بتایا کہ مارچ کے منتظمین کچھ تجاویزبھی پیش کریں گے جن پرحکومت کام کرے تو شاید دنیا کو ناقابلِ تلافی تقصانات سے بچایا جا سکتا ہے۔‘
24 سالہ اربن محقق اور ایکٹوسٹ فضا قریشی نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ’ہم چاہتے ہیں کہ عوام کا بیانیہ لوگوں اور حکمرانوں تک پہنچے تاکہ یہ بتایا جاسکے کہ کیا کچھ ہونے والا ہے۔‘
‘ہم مارچ اس لیے کرنے جارہے ہیں کیونکہ پاکستان پر موسمیاتی تبدیلی کے زیادہ اثرات مرتب ہوں گے، ہم ان بین الاقوامی قوتوں کو احتساب کے کٹہرے میں کھڑا کرنا چاہتے ہیں جن کی آلودگی کی وجہ سے ہم ان موسمیاتی تبدیلیوں کا سامنا کررہے ہیں۔‘
مزید پڑھیں

 

مارچ کی ایک اور منتظم 26سالہ زہرا زیدی کا کہنا تھا کہ ’جب پوری دنیا میں یہ مارچ ہورہا ہے تو ہم کیوں نہ کریں۔ جو بھی کوئی چیز آپ کو تباہ کر رہی ہو اس کے لیے سڑک پر نکلنا بہت ضروری ہوگیا ہے۔ انہوں نے مثال دی کہ کیسے لوگ عورت مارچ کے لیے نکلے اور حالیہ دنوں کشمیر میں ہونے والے مظالم کے خلاف لوگوں نے باہر نکل کر اظہارِ یکجہتی کیا۔
منتظمین کا کہنا ہے کہ وہ اس مارچ کے بعد بھی ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے مختلف سیمینارز منعقد کرائیں گے جبکہ سکولوں اور کالجوں میں بھی آگہی مہم شروع کریں گے۔
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز پاک‘ گروپ میں شامل ہوں

شیئر: