Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’بائیک پر پیچھے نہیں بیٹھوں گی‘

پاکستان کے سب سے بڑے شہر کی سڑکوں پر ٹریفک کو مات دیتے ہوئے بائیک چلانا کوئی آسان کام نہیں۔ یہ اس وقت تقریباً  ناممکن ہوجاتا ہے جب کوئی خاتون ایسا کرنے کا سوچے کیونکہ مردوں کی نظریں ہر دم آپ پر ہی ہوتی ہیں۔
البتہ گلزار نیانی نے دو سال قبل عزم کیا کہ وہ اس نا ممکنات کے پہاڑ کو سر کریں گی۔ انہوں نے نہ صرف موٹرسائیکل چلانا سیکھی بلکہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کر لاتے ہوئے اس ساری جدوجہد پر ایک جاندار دستاویزی  فلم بھی بنائی۔
’جب ایک عورت سڑک پر نکلتی ہے تو معاشرے کی سخت نظروں کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ آپ سے سوال کیا جارہا ہو کہ آپ باہر کیسے نکل آئیں۔ آپ کا وجود آپ کو چھوٹا سا لگنے لگتا ہے۔۔۔‘
گلزار نے اپنی گریجویشن 2015 میں مکمل کی۔ اپنی پڑھائی کے دوران اور نوکری کرتے وقت ان کو آمدو رفت میں خاصے مسائل کا سامنا رہا۔ 
’آپ ایک دوسرے سے دوسری جگہ تنگ ہوئے بنا گزر نہیں سکتے، یہ نظریں برداشت کیے بغیر نہیں جاسکتے۔‘

گلزار نے اپنی گریجویشن 2015 میں مکمل کی

گلزار نے محسوس کیا کہ اگر سڑک پر کوئی خاتون بائیک چلاتی ہوئی دکھائی دے تو ایک اچھنبے کی بات ہوتی ہے۔ کئی دفعہ تو انہیں نے دیکھا کہ اخبار میں تصویر چھپی اور یہ بات خبر بن گئی کہ کوئی لڑکی اپنی موٹر سائیکل خود چلا رہی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’ہمارے سماج میں ایک شجرِ ممنوع ہے کہ لڑکیاں خود سے اپنی سواری چلائیں۔ چاہے وہ گاڑی ہی کیوں نہ چلائیں، انہیں تمسخر سے بھری نگاہوں کا سامنا ہوتا ہے۔‘
وہ کہتی ہیں: ’مجھے یہ جاننا تھا کہ جو لڑکیاں بائیک چلا رہی ہیں، کیا یہ ممکن ہے، کیا یہ رواج بڑھ سکتا ہے۔ میرے سامنے ایک تحقیق آئی کہ 60 فیصد شہر کی خواتین چاہتی ہیں کہ وہ بائیک چلا سکیں۔ مگر حقیقت میں اتنی خواتین سڑکوں پر چلاتے ہوئے نہیں دکھائی دیتیں۔ میں جاننا چاہتی کہ یہ کیوں ہے۔‘
اور پھر انہوں نے ٹھان لیا کہ نہ صرف وہ بائیک چلانا سیکھیں گی بلکہ اپنے تجربے کو دستاویز بھی کریں گی تاکہ مزید عورتیں بھی ان کے تجربے سے استفادہ کرسکیں۔
’میں نے اپنے ہی زندگی کے تجربے کو فلمایا ہے اور یہ دکھایا ہے کہ عورت کو سڑک پر اپنی سواری خود چلاتے ہوئے کن دشواریوں کو سامنا ہوتا ہے۔ اور پھر آکر میں یہ بھی دکھایا ہے کہ یہ ایک تحریک ہے کیونکہ مزید عورتیں اس عمل میں شامل ہورہی ہیں۔‘

گلزار کا کہنا کہ اس جدہوجہد کی کامیابی کا سہرا ان کی سہیلی ثروت راتانی کو بھی جاتا ہے

’پہلے پہل میرا ہرگز ارادہ نہیں تھا کہ میں خود اس فلم میں فریم کے اندر آؤں۔ مگر میں خود بھی یہ محوسوس کرنا چاہتی تھی کہ ایک عورت کیا محسوس کرتی ہے جب سماج سے صرف پر اسکا سامنا ہوتا ہے۔ ابتدا میں میں نے ایک دوسری لڑکی سے درخواست کی تھی کہ وہ میری فلم میں کردار ادا کرے مگر میں نے دیکھا کہ وہ مطمئن ںہیں ہے تو میں نے خود بھی فریم کے اندر آنے کا سوچا تاکہ اس مشکل سے خود لڑ سکوں۔‘
گلزار کا کہنا کہ وہ ان کی اس جدہوجہد کی کامیابی کا سہرا ان کی سہیلی ثروت راتانی کو بھی جاتا ہے جو بائیک سیکھنے سے لے کر اس کو سارے عمل کو فلمانے میں بھی پیش پیش رہیں۔ ان کی فلم ’نو مور بیک سیٹرز‘ اب تک کئی مقامات، حتٰی کہ کراچی کے مشہور کیپری سینیما میں بھی دکھائی جا چکی ہے۔ 
اس جدوجہد کی وجہ سے گلزار کے اندر مثبت تبدیلی رونما ہوئی ہے۔ ’جب آپ اپنی بائیک خود چلا رہے ہوتے ہیں تو جو خوشی آپ کو محسوس ہوتی ہے وہ ناقابلِ بیاں ہے۔ اور عورت ہونے کے ناطے خوف موجود ہوتا ہے لیکن یہ بھی لگتا ہے کہ آپ اپنی حدود، اوراپنے اوپر لگنے والی پابندیوں کو مستقل عبور کرہے ہیں۔‘
’یہ احساس ہر وقت موجود ہوتا ہو کہ لوگ کیا کہیں گے، آیا معشرہ ہمیں قبول کرے گا کہ نہیں۔ تاہم، ایک دن میں اس احساس کو ضرور ختم کردوں گی۔‘
 

شیئر: