Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عراق میں مظاہروں میں شدت، سو افراد ہلاک

طبی ذرائع نے کہا ہے کہ زخمیوں میں بعض کی حالت انتہائی نازک ہے (فوٹو اسکائی)
عراق میں پر تشدد مظاہروں کے نتیجے میں ہلاک شدگان کی تعداد سو سے تجاوز کرگئی ہے جبکہ زخمیوں کی تعداد 4 ہزار سے زیادہ بتائی جارہی ہے۔
سبق ویب سائٹ کے مطابق عراقی پارلیمنٹ میں انسانی حقوق کمیٹی نے کہا ہے کہ مرنے والوں میں 6 افراد کا تعلق پولیس ہے۔
اسکائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے طبی ذرائع نے کہا ہے کہ زخمیوں میں بعض کی حالت انتہائی نازک ہے جبکہ بغداد کے بعض اسپتال کے مردہ خانوں میں اب مزید گنجائش باقی نہیں بچی۔
دریں اثناء مذہبی رہنما مقتدی الصدر نے پر تشدد مظاہروں میں شدت کے بعد عراقی حکومت سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے۔
یاد رہے کہ عراق میں بے روزگاری اور کرپشن کے خلاف مظاہرے جاری ہیں۔

 


تین ہزار زخمی ہیں۔۔ مرنے والوں کی تعداد  بڑھ سکتی ہے۔ فوٹو اے پی

 اے ایف پی کے مطابق مقتدی الصدر نے ایک بیان میں کہا کہ ’مزید ہلاکتوں سے بچنے کے لیے حکومت کو مستعفی ہو جانا چاہئے اور اقوام متحدہ کی نگرانی میں قبل از وقت انتخابات کا انعقاد ہونا چاہئے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ’عراقی خون بہایا جارہا ہے۔ خاموش نہیں رہ سکتے۔‘
 مقتدی الصدرکے بیان سے وزیر اعظم عادل عبدالمہدی پر نیا دباؤ اس وقت آیا ہے جب وہ بدامنی کے خاتمے کے لیے لڑ رہے ہیں۔
عراقی ہیومن رائٹس کمیشن کے مطابق عراق میں پچھلے 5 دن سے جاری خونریز مظاہروں میں کم از کم 73 افراد ہلاک ہوگئے تاہم یہ نہیں بتایا کہ ان میں شہریوں اور سکیورٹی اہلکاروں کی تعداد کتنی ہے۔
 عراقی حکام نے اس سے قبل مرنے والوں کی تعداد 44 بتائی تھی تاہم گذشتہ روز دارالحکومت بغداد کے ایک ہی اسپتال میں 18 ہلاکتیں رجسٹرڈ کی گئیں۔

مقتدی الصدرکے بیان سے وزیر اعظم عادل عبدالمہدی پر نیا دباو  آیا ہے۔فوٹو اے پی

 پرتشدد مظاہروں میں  4 ہزار سے زیادہ افراد زخمی ہیں۔ مرنے والوں کی تعداد مزید بڑھ سکتی ہے۔
واضح رہے کہ عراق میں گزشتہ کئی دنوں سے جاری مظاہروں میں شدت آتی جارہی ہے۔ مظاہروں کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ کسی تنظیم کی جانب سے نہیں بلکہ خالص عوامی مظاہرے ہیں۔ لوگ کرپشن ، بے روزگاری اور مہنگائی کے علاوہ حکومتی کارکردگی سے تنگ آکر سڑکوں پر آئے ہیں۔
عراقی وزیر اعظم نے جمعہ کی صبح اپنے خطاب میں حکومت مخالف مظاہرین سے کہا تھاکہ’ آپ کے مطالبا ت جائز ہیں۔ آپ کی بات سنی جا چکی ہے۔اب وہ گھروں کو لوٹ جائیں‘۔
 انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایک قانون منظور رکرانے کی کوشش کریں گے تاکہ ہر عراقی باعزت طور پر زندگی بسر کر سکے۔
عراقی وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ سلامتی کے لیے مشکل فیصلہ کیے۔ انہوں نے غیر معینہ مدت کے لیے کرفیو کے نفاذ کوامن برقرار رکھنے اور مظاہرین کو تحفظ کے لیے ضروری قرار دیا۔

شیئر: