Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’مظاہرین کے خلاف ضرورت سے زیادہ طاقت کا استعمال ہوا‘

عراق میں پر تشدد مظاہروں کے دروان زخمیوں کی تعداد چار ہزار سے زیادہ بتائی جا رہی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
عراق کی فوج نے تسلیم کیا ہے کہ حکومت مخالف مظاہرین سے نمٹنے کے لیے طاقت کا ’ضرورت سے زیادہ‘ استعمال کیا گیا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق فوج کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ ’طاقت کا قواعد سے ہٹ کر استعمال کیا گیا اور اس غلط کام میں ملوث افسران کو ذمہ دار ٹھہرانے کے لیے کارروائی شروع کی گئی ہے۔‘
عراقی دارالحکومت بغداد میں اتوار کی رات ہزاروں مظاہرین کے خلاف سیکورٹی فورسز کے کریک ڈاؤن میں 13 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
ادھر عراقی وزیراعظم عادل عبدالمہدی نے ملک میں جاری مظاہروں کے بارے میں امریکی سیکریٹری خارجہ مائیک پومپیو سے ٹیلی فون پر گفتگو کی ہے۔
 
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق عراقی وزیراعظم کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ حکومت نے مظاہرین کے مطالبات پورے کرنے کے لیے اصلاحات کا پیکج متعارف کرایا ہے اور اس سلسلے کو آگے بڑھایا جائے گا۔
بیان کے مطابق ’وزیراعظم نے کرفیو ہٹائے جانے کے بعد امن و امان کی صورتحال کا جائزہ لیا اور کہا کہ سیکورٹی فورسز نے کنٹرول سنبھال لیا ہے اور عام حالت زندگی کو بحال کر دیا گیا ہے۔‘  
بیان میں کہا گیا ہے ’وزیراعظم نے فوج کے تمام یونٹس کو الصدر سٹی سے انخلا کا بھی حکم دیا ہے اور وہاں وفاقی پولیس تعینات کی جائے گی۔‘
خیال رہے کہ اتوار کو رات گئے بغداد میں سیکورٹی فورسز اور حکومت مخالف مظاہرین میں تصادم کے دوران مزید آٹھ افراد ہلاک ہو گئے تھے جس سے ہلاکتوں کی تعداد سو سے تجاوز کر گئی۔

کرفیو اٹھائے جانے کے بعد اتوار کو ہزاروں کی تعداد میں مظاہرین سڑکوں پر نکلے۔ فوٹو: اے ایف پی

وزارت داخلہ کے ترجمان میجر جنرل سعد مان نے سرکاری ٹی وی پربتایا کہ ایک ہفتے میں پرتشدد واقعات کے دوران ہلاکتوں کی تعداد 104 ہوگئی۔ ان میں آٹھ سیکیورٹی اہلکار شامل ہیں جبکہ 6 ہزار سے زیادہ زخمی ہیں۔
 وزارت داخلہ کے مطابق اب تک 52 سرکاری گاڑیاں اور 60 کے قریب سرکاری اور نجی املاک کو آگ لگائی جا چکی ہے۔
وزیراعظم عادل عبدالمہدی نے کابینہ کے غیر معمولی اجلاس کے بعد 17 نکاتی اصلاحات پروگرام کرنے کا اعلان کیا۔  
عراقی وزیراعظم کے اصلاحاتی منصوبے میں کم آمدنی والے گھرانوں کو زمینیں دینا، غریب علاقوں میں ایک لاکھ نئے مکانات کی تعمیر، بے روزگاروں اور معذور افراد کو ماہانہ گرانٹ، روزگار کے مواقع فراہم کرنا اور گریجویٹس کے لیے نئے تربیتی کورسز شامل ہیں۔

مظاہرے ابتدائی طور پر دو بڑے شہروں میں بے روزگاری کے خلاف شروع ہوئے تھے۔ فوٹو: اے ایف پی

یاد رہے کہ عراق میں پر تشدد مظاہروں کے دروان زخمیوں کی تعداد چار ہزار سے زیادہ بتائی جا رہی ہے۔
مذہبی رہنما مقتدی الصدر نے پر تشدد مظاہروں میں شدت کے بعد عراقی حکومت سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رکھا ہے۔
اے ایف پی کے مطابق مقتدی الصدر نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ’مزید ہلاکتوں سے بچنے کے لیے حکومت کو مستعفی ہو جانا چاہیے اور اقوام متحدہ کی نگرانی میں قبل از وقت انتخابات کا انعقاد ہونا چاہیے۔‘
انہوں نے کہا کہ’عراقی خون بہایا جارہا ہے۔ خاموش نہیں رہ سکتے۔‘
 اس سے قبل عراقی وزیراعظم نے جمعہ کی صبح اپنے خطاب میں حکومت مخالف مظاہرین سے کہا تھا کہ ’آپ کے مطالبا ت جائز ہیں۔ آپ کی بات سنی جا چکی ہے۔ اب گھروں کو لوٹ جائیں‘۔
 انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ایک قانون منظور کرانے کی کوشش کریں گے تاکہ ہر عراقی باعزت طور پر زندگی بسر کر سکے۔
عراقی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ سلامتی کے لیے مشکل فیصلہ کیے۔ انہوں نے غیر معینہ مدت کے لیے کرفیو کے نفاذ کوامن برقرار رکھنے اور مظاہرین کو تحفظ کے لیے ضروری قرار دیا تھا۔

شیئر: