Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی عرب میں نیشنل ایڈریس کا حصول لازمی کیوں؟

نیشنل ایڈریس کو محکمہ پاسپورٹ اینڈ امیگریشن کے سسٹم ’ابشر‘ سے منسلک کرنا لازمی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
ٹیکنالوجی کے اثرات سے ہر خطے اور ملک میں تبدیلیاں واقع ہو رہی ہیں اور اس کے نتیجے میں قوانین و ضوابط بھی وقت کے ساتھ ساتھ بدل رہے ہیں جس میں سعودی عرب بھی پیش پیش ہے جہاں ’نیشنل ایڈریس‘ متعارف کرایا گیا ہے۔
نیشنل ایڈیس پر مرحلہ وار عمل درآمد کیا جا رہا ہے اور آنے والے دنوں میں سعودی عرب میں مقیم غیر ملکیوں کے لیے اس کا حصول لازمی ہوگا کیونکہ اسی کی مدد سے اقاموں کی تجدید اور ڈرائیونگ لائسنس کا حصول ممکن ہو سکے گا۔

نیشنل ایڈریس ضروری کیوں؟

جس طرح ماضی میں سرکاری معاملات کی انجام دہی کے لیے پوسٹ بکس لازمی ہوتا تھا اسی طرح اب نیشنل ایڈریس ہے۔
مملکت میں مقامی اور غیر ملکیوں کی اس میں شمولیت کو یقینی بنانے کے لیے مختلف مراحل میں منصوبے شروع کیے گئے۔ ابتدائی طور پر سرکاری دفاتر کو لازمی نیشنل ایڈریس سکیم میں شامل کیا گیا جبکہ بعد ازاں بڑی کمپنیوں کے لیے یہ ضروری قرار دیا گیا۔
نجی شعبے میں کام کرنے والی بڑی کمپنیوں اور اداروں کے لیے نیشنل ایڈریس کے مرحلے کے بعد دوسرا دور چھوٹے اداروں کے لیے شروع کیا گیا جنہیں نیشنل ایڈریس میں رجسٹر کرنے کے بعد انفرادی سطح پر نیشنل ایڈریس کو لازمی قرار دیا گیا۔

نیشنل ایڈریس نہ ہونے پر کن مشکلات کا سامنا کرنا ہو گا؟


ادارہ ٹریفک پولیس میں بھی معاملات کو نمٹانے کے لیے خود کار سسٹم نیشنل ایڈریس کا مطالبہ کرتا ہے۔ فوٹو: سوشل میڈیا

ڈیجیٹل ترقی کے لیے لازمی ہے کہ ملک کے تمام شہریوں اور یہاں رہائش پذیر دیگر افراد کے حوالے سے انجام دیے جانے والے تمام سرکاری معاملات کو نمٹانے کے لیے انہیں مخصوص نمبر آلاٹ کیے جائیں۔ سعودی شہریوں کے لیے ان کے آئی ڈی کارڈ یعنی شناختی کارڈ جبکہ غیر ملکیوں کے لیے اقامہ کارڈ کے نمبر کو تمام سرکاری اداروں سے منسلک کیا گیا۔
سعودی عرب کے مستقبل کے ویژن 2030 میں وہاں کے سرکاری اداروں میں روایتی کاغذی کارروائیاں مکمل طور پر ختم ہو جائیں گی۔ اس ضمن میں مرحلہ وار کام کیا جا رہا ہے۔
نیشنل ایڈریس منصوبہ بھی مستقبل کے ویژن 2030 کا اہم حصہ ہے جس کے بغیر سعودی عرب میں کسی بھی شخص کا سرکاری اداروں میں کوئی کام نہیں ہو سکے گا۔ اقاموں کی تجدید، ان کی ترسیل، ڈرائیونگ لائسنس،گاڑی کے ملکیتی کارڈز کی تجدید کے علاوہ ورک پرمٹ، تجارتی لائسنس وغیرہ جیسے امور تمام نیشنل ایڈریس سے مربوط کر دیے گئے ہیں۔
نیشنل ایڈریس کو محکمہ پاسپورٹ اینڈ امیگریشن کے سسٹم ’ابشر‘ سے منسلک کرنا لازمی ہے جس کے بعد ہی اقاموں کی تجدید اور دیگر امور ممکن ہوتے ہیں۔
اس وقت نیشنل ایڈریس کے انفرادی حالات کے دوسرے مرحلے کا  آغاز ہو چکا ہے اور مملکت میں مقیم تمام غیر ملکیوں کو بھی اس دائرے میں شامل کیا جا رہے کہ وہ اپنے رہائشی یا کام کرنے کے مقام کا  ایڈریس رجسٹر کرائیں تاکہ سرکاری معاملات بہتر طور پر انجام دیے جاسکیں۔

ایک وقت تھا جب سعودی عرب کے ڈاک خانوں میں پوسٹ بکس کا حصول انتہائی مشکل سمجھا جاتا تھا۔ فوٹو: اے ایف پی

کسی بھی بینک میں اکاؤنٹ کھولنے کے لیے لازمی ہے کہ نیشنل ایڈریس فارم میں درج کرایا جائے جب تک نیشنل ایڈریس درج نہیں ہوگا خود کار ڈیجیٹل سسٹم درخواست گزار کے لیے دوسرا مرحلہ شروع نہیں کرسکتا۔
ادارہ ٹریفک پولیس میں بھی معاملات کو نمٹانے کے لیے خود کار سسٹم نیشنل ایڈریس کا مطالبہ کرتا ہے جس کے بغیر معاملات کو دوسرے مرحلے میں منتقل نہیں کرتا جس کے باعث ڈرائیونگ لائسنس یا گاڑی کے ملکیتی کارڈ کی تجدید ممکن نہیں ہو سکتی۔

ڈاک خانے کا پرانا نظام اور نیشنل ایڈریس

ایک وقت تھا جب سعودی عرب کے مرکزی اور ذیلی ڈاک خانوں میں پوسٹ بکس کا حصول انتہائی مشکل سمجھا جاتا تھا۔ سرکاری خط و کتابت اور بینک اکاؤنٹ کھلوانے کے لیے ڈاک خانے کی ممبر شپ اور پوسٹ بکس حاصل کرنا لازمی تھا۔
اگر کسی ادارے میں ڈاک خانے کی ممبر شپ نہیں ہوتی تو اس کے سرکاری معاملات کو نمٹانے میں بے حد مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ مملکت میں انٹرنیٹ کی آمد کے ساتھ ہی ڈاک خانوں اور پوسٹ بکس کی افادیت ختم ہوتی گئی۔
وقت کے ساتھ ساتھ ہونے والی تبدیلی کے اثرات کے تحت محکمہ ڈاک کو بھی جدید خطوط پر استوار کرتے ہوئے سسٹم کو  جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جانے لگا اور ڈیجیٹل خدمات اپنے صارفین کو پیش کرنے کے ضمن میں ’پوسٹل کوڈ‘ کا اجرا کیا۔
سعودی محکمہ سروے کے اشتراک سے محکمہ ڈاک میں جامع منصوبہ بندی کے تحت مملکت کے تمام شہروں، قصبوں اور دیہاتوں میں پلاننگ کے ذریعے گھروں کی نقشہ بندی کی گئی اور پوسٹل کوڈز جاری کیے گئے۔
پوسٹل کوڈ کے ذریعے مملکت کے طول و عرض میں ’نیشنل ایڈریس‘ جسے عربی میں ’عنوان الوطنی‘ کہتے ہیں کو متعارف کرایا گیا۔ 
واٹس ایپ پر سعودی عرب کی خبروں کے لیے ”اردو نیوز“ گروپ جوائن کریں

شیئر: