Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جسٹس فائز: بینچ کی تحلیل کا زبانی حکمنامہ واپس

سپریم کورٹ نے صدارتی ریفرنس کے خلاف عدالت عظمیٰ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے آئینی پٹیشن کی سماعت کرنے والے دس رکنی بینچ تحلیل ہونے کا زبانی حکمنامہ واپس لے لیا۔
سپریم کورٹ کی طرف سے ایک بیان جاری کیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اس بینچ کے رکن جسٹس مظہر عالم میاں خیل اپنی فیملی میں فوتگی کے سبب بینچ میں شامل نہ ہو سکے۔ جسٹس مظہر عالم میاں خیل کی عدم دستیابی کے سبب عدالتی کارروائی نہ چل سکی۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’ہمیں بتایا گیا کہ جسٹس مظہر عالم میاں خیل آئندہ ہفتے اپنے فرائض کی انجام دہی کے لیے دستیاب ہوں گے اور کیس کی سماعت 28 اکتوبر دن ساڑھے گیارہ بجے ہوگی۔‘
خیال رہے اس سے قبل پیر کی صبح عدالتی کاروائی کے دوران  فل کورٹ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے بینچ کے تحلیل کی بات کی تھی۔ جب عدالت عظمیٰ میں مقدمے کی سماعت کا آغاز ہوا توجسٹس عمر عطا بندیال نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک کو مخاطب کر کے کہا تھا کہ ’ہم یہ کیس چلانا چاہتے ہیں مگر بینچ کے ایک معزز جج صاحب اپنے خاندان میں ہونے والی ایک فوتگی کے سبب موجود نہیں اور وہ طویل عرصے تک دستیاب نہیں ہوں گے۔‘
مقدمے کی گذشتہ سماعت بھی جسٹس مظہر عالم کی عدم موجودگی کے باعث ملتوی کی گئی تھی۔

مقدمے کی گذشتہ سماعت بھی جسٹس مظہر عالم کی عدم موجودگی کے باعث ملتوی کی گئی تھی۔

بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا تھا کہ انہوں نے خود طے کیا ہے کہ بینچ دوبارہ تشکیل دیا جائے اور وہ نئے بینچ کی دوبارہ تحلیل کے لیے معاملے چیف جسٹس کو بھیج رہے ہیں۔‘
صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس قاضی فائز اور وکلا تنظیموں کی درخواستوں پر سماعت کرنے والے بینچ پہلے بھی ایک بار اس وقت تحلیل کیا گیا تھا جب وکیل منیر اے ملک نے بینچ میں شامل دو جج صاحبان پر اعتراض کیا تھا۔
جسٹس قاضی فائز کے وکیل منیر اے ملک نے کہا کہ وہ اپنی گزارشات فل کورٹ کے سامنے ہی رکھنا چاہیں گے جس پر بینچ کے سربراہ نے کہا کہ نیا بینچ تشکیل دینا چیف جسٹس کا اختیار ہے اور انہوں نے اخلاقی طور پر وکیل کو آگاہ کرنا مناسب سمجھا۔
سینیئر وکیل حامد نے مقدمے کی سماعت کے بعد عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس کیس میں نئے سرے سے بینچ تشکیل ہی نہیں دیا جا سکتا۔ ’اگر کوئی جج صاحب موجود نہیں ہیں تو ان کے آنے کا انتظار کیا جاتا ہے۔‘
حامد خان ایڈووکیٹ نے کہا تھا کہ اس میں نئے سرے سے بینچ تو تشکیل دیا ہی نہیں جا سکتا کیونکہ آرڈر فل کورٹ کا ہے جس میں سارے ججز شامل ہوں۔ 
خیال رہے کہ اس سال مئی کے اواخر میں سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سندھ ہائیکورٹ کے جسٹس کریم خان آغا کے خلاف صدر عارف علوی کی جانب سے مس کنڈکٹ کے الزام میں سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کر کے ان کو عہدے سے ہٹانے کی استدعا کی تھی۔ 
مزید پڑھیں

 

سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے دونوں ججز کو شوکاز نوٹس جاری کیے گئے تھے جبکہ ملک بھر میں وکلا کی تنظیموں نے صدارتی ریفرنس اور سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کے خلاف احتجاج شروع کیا تھا۔
پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے 12 جولائی کو صدارتی ریفرنس کے خلاف یوم سیاہ مناتے ہوئے عدالتوں کے باہر احتجاج کیا تھا۔
جسٹس قاضی فائز نے سپریم جوڈیشل کونسل کی اپنے خلاف کارروائی کو چیلنج کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ میں دو متفرق درخواستیں دائر کی ہیں۔ ایک درخواست میں انہوں نے چیف جسٹس کے اس فیصلے کو بھی چیلنج کیا ہے جو ان کے حق میں دیا گیا تھا اور جس میں ان کے خلاف صدر کو خط لکھنے پر دائر کیا گیا ریفرنس ختم کیا گیا تھا۔
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ میں شامل ہوں

شیئر:

متعلقہ خبریں