Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’دو دن میں استعفیٰ دیں ورنہ ہم نے آگے فیصلے کرنے ہیں‘

مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ عوام کا فیصلہ آچکا ہے، اب اس حکومت کو جانا ہی جانا ہے۔ 
اسلام آباد میں آزادی مارچ سے خطاب کے دوران انہوں نے حکومت کو دو دن کی مہلت دیتے ہوئے کہا کہ ’دو دن ہیں آپ کے پاس، آپ استعفیٰ دے دیں ورنہ پھر اگلے دن ہم نے اس سے آگے فیصلے کرنے ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہماری جچی تلی پالیسی ہے کہ ہم اداروں سے تصادم نہیں چاہتے۔ ہم اداروں کا استحکام چاہتے ہیں لیکن اداروں کو غیر جانبدار بھی دیکھنا چاہتے ہیں۔ اداروں کے پاس دو دن کی مہلت ہے کہ ہم ان کے بارے میں اپنی کیا رائے قائم کرتے ہیں۔‘ 
مولانا فضل الرحمان نے مزید کہا کہ ’ہم پرامن لوگ ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ ہم قانون کے دائرے میں رہیں، ورنہ عوام کا یہ اجتماع وزیراعظم کو ان کے گھر جا کر خود گرفتار کرنے پر قدرت رکھتا ہے۔‘ 
جے یو آئی (ف) کے سربراہ کے بقول ’ہم سب لوگوں کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ 25 جولائی 2018 کو جو الیکشن پاکستان میں ہوئے تھے وہ فراڈ الیکشن تھے۔ ہم نہ ان الیکشنز کو تسلیم کرتے ہیں اور نہ ان کے نتیجے میں بننے والی حکومت کو۔‘
ان کے مطابق ’ملکی معیشت تباہ ہو گئی ہے، مہنگائی نے گھر کر لیا ہے، مائیں بچوں کو بیچنے پر مجبور ہو گئی ہیں، نوجوان خود کشیاں کر رہے ہیں، رکشے والا اپنے رکشے کو جلا رہا ہے، کیا ہم عوام کو اس حکومت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں؟‘
ہم سلیکٹڈ اور کٹھ پتلی نظام کو نہیں مانتے: بلاول بھٹو زرداری
اس سے قبل پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ وہ مولانا فضل الرحمان کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے ساری جماعتوں کو اکھٹا کر کے ایک واضح پیغام بھیجا ہے کہ پاکستان کے عوام صرف اور صرف جمہوریت کو مانتے ہیں۔

بلاول نے کہا کہ ’سلیکٹڈ حکومت عوام پر ہمیشہ بوجھ ڈالتی ہے۔‘ فوٹو: سوشل میڈیا

’آزادی مارچ‘ سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’عوام سلیکٹیڈ اور کٹھ پتلی نظام کو نہیں مانتے۔ وہ نظام جس کو سب نے مل کر 1973 کے آئین میں پاس کیا تھا، عوام وہی جمہوریت، وہی آئین چاہتے ہیں۔‘
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ 70 سال بعد بھی ملک میں شفاف الیکشن نہیں ہوسکے۔ نئے پاکستان میں کس قسم کی جمہوریت اور آزادی ہے۔ سلیکٹڈ حکومت عوام پر ہمیشہ بوجھ ڈالتی ہے۔
بلاول کے مطابق ’پورے ملک کا ایک پیغام ہے، ساری سیاسی جماعتوں کا ایک ہی نعرہ ہے، پاکستان پیپلز پارٹی کا ایک ہی پیغام ہے کہ گو سلیکٹڈ گو۔ ہم سب مل کر اس کٹھ پتلی وزیراعظم کو، اس سلیکٹڈ وزیراعظم کو گھر بھیجیں گے۔‘

’عوام کا سمندر سلیکٹڈ حکومت کو بہا لے جائے گا‘

پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے کہا ہے کہ ’آزادی مارچ میں عوام کا سمندر سلیکٹڈ حکومت کو بہا لے جائے گا۔‘
اسلام آباد میں جے یو آئی (ف) کے ’آزادی مارچ‘ سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’عمران خان تم نے کنٹینر کی سیاست شروع کی تھی جو آج یہاں دفن ہو رہی ہے۔
قائد حزبِ اختلاف کا مزید کہنا تھا کہ اگر انہیں موقع دیا جائے تو وہ مولانا کے ساتھ مل کر اس معیشت کو چھ مہینے میں ٹھیک کر دیں گے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’اگر معیشت ٹھیک نہ کر سکا تو میرا نام عمران خان نیازی رکھ دیا جائے۔
 

شہباز شریف کے بقول مریضوں سے ادویات چھین لی گئی ہیں۔

واضح رہے کہ ’آزادی مارچ‘ مولانا فضل الرحمان کی قیادت میں جمعرات کو اسلام آباد پہنچا تھا۔ آزادی مارچ کے استقبالیہ کیمپ سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ جمعے کی نماز کے بعد حکومت کو مطالبات پیش کیے جائیں گے۔
دوسری جانب وزیر اعظم عمران خان کے ترجمان اور معاون خصوصی ندیم افضل چن نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان اپوزیشن لیڈر کے طور پر آ رہے ہیں اور ان کا مقابلہ اپوزیشن کی سیٹ ہے۔
اردو نیوز کے نمائندہ بشیر چوہدی کے ساتھ انٹرویو میں ان کا کہنا ہے کہ ’ مولانا کی وجہ سے شہباز شریف فارغ ہوچکے ہیں۔‘
 

مولانا فضل الرحمان کے آزادی مارچ کے حوالے سے وفاقی وزیر داخلہ اعجاز شاہ نے جمعرات کو اسلام آباد میں وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کے ہمراہ نیوز کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ’مولانا مارچ ضرور کریں لیکن عدالتی فیصلوں کا بھی احترام کریں، اس حوالے سے سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے موجود ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’دو ماہ قبل جب اے پی سی کے بعد مولانا فضل الرحمان نے احتجاج کا فیصلہ کیا اور تاریخ کا اعلان کیا تو ان کے اتحادیوں کو بھی پتا نہیں تھا کہ اصل میں وہ کرنے کیا جا رہے ہیں۔ اس وقت پرویز خٹک کی سربراہی میں کمیٹی بھی بنی اور دوسری جانب سے رہبر کمیٹی بنائی گئی، مذاکرات بھی ہوتے رہے، تاہم جب انہوں نے اسلام آباد آنے کا اعلان کیا تو اس کے بعد دونوں جانب سے ہونے والی بیان بازی نے صورت حال کو کشیدہ کیا۔‘

وزیر داخلہ کے مطابق سکیورٹی خدشات کی بنا پر اپوزیشن رہنماؤں کو ڈی چوک جانے سے منع کیا گیا، فوٹو: پی آئی ڈی

اس موقع پر ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ ہم سیاسی میدان کے کھلاڑی ہیں، محاذ آرائی نہیں چاہتے، حکومت نے جمہوری روایات کی پاسداری کرتے ہوئے احتجاج کی اجازت دی ہے، سکیورٹی کی ذمہ داری بشمول سات ہزار سفارتی عملے کے حکومت کی ہے، مولانا فضل الرحمان پاکستان کے ساتھ رشتے کو کمزور نہ کریں اور ایسا کوئی بھی قدم اٹھانے سے پرہیز کریں جس سے بیرونی سطح پر پاکستان کی بدنامی ہو۔
خیال رہے کہ کراچی سے لے کر سکھر، ملتان، لاہور اور گوجرانوالہ میں مولانا فضل الرحمان کی تقاریر کا لب لباب یہی ہے کہ وہ کسی صورت پیچھے نہیں ہٹیں گے، 25 جولائی 2018 کے جعلی انتخابات اور اس کے نتیجے میں بننے والی حکومت کو تسلیم نہیں کرتے۔

شیئر: