Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مولانا فضل الرحمان کا پلان بی کیا ہے؟

مولانا فضل الرحمان نے ’آزادی مارچ‘ کو پاکستان کی آزادی اور بقا کی مارچ قرار دیا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
پاکستان میں اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی پارٹی جمعیت علمائے اسلام کا آزادی مارچ جوں جوں اسلام آباد کی طرف قریب آ رہا ہے تو ایک سوال جنم لے رہا ہے کہ مولانا فضل الرحمان کا ’پلان بی‘ کیا ہوگا؟
مولانا خود کہہ چکے ہیں کہ انھوں نے کبھی دھرنے کا لفظ استعمال نہیں کیا، لیکن ان کی جماعت کے سینیئر رہنما اکرم درانی کہہ رہے ہیں کہ اگر وزیراعظم نے استعفیٰ نہ دیا تو وہ اسلام آباد سے واپس نہیں جائیں گے۔
’اردو نیوز‘ نے مولانا ٖفضل الرحمان کا ’پلان بی‘ جاننے کے لیے جمعیت علمائے اسلام ف کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات حافظ حسین احمد سے خصوصی بات چیت کی۔

’آزادی مارچ‘ کا آغاز 27 اکتوبر کو کراچی سے ہوا تھا۔ فوٹو: سوشل میڈیا

حافظ حسین احمد نے پہلے تو اپنے مخصوص انداز میں کہا کہ ’ہمارا پلان بی، پلان اے کے بعد اور پلان سی سے پہلے ہے۔ فی الحال اتنی ہی پالیسی ہے کہ ہم اسلام آباد کی طرف بڑھ رہے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’کچھ حکومتی وزرا یہ بیان دے رہے ہیں کہ ہم ان کو بٹھا دیں گے اور یہ اٹھ نہیں سکیں گے۔ اگر حکومت ہمیں بٹھا دے گی تو ہم ان کے جوڑوں میں بیٹھ جائیں گے۔‘
پارٹی کے سیکریٹری اطلاعات نے کہا کہ ’ہم کسی قسم کی مزاحمت نہیں کریں گے۔ آئین اور قانون کی پاسداری کریں گے۔‘
حافظ حسین احمد نے اکرم درانی کے بیان کے حوالے سے واضح کیا کہ ان کی جماعت نے دھرنے کا اعلان نہیں کیا۔
انھوں نے کہا کہ ’مارچ کا پلان بی حکومتی ایکشن پر منحصر ہے۔‘
حافظ حسین احمد سے سوال کیا گیا کہ ’حکومتی ایکشن سے مراد طاقت کا استعمال ہے یا وزیراعظم کا استعفیٰ؟‘  تو ان کا جواب تھا کہ ’طاقت کا استعمال ہو یا حماقت کا استعمال، دونوں صورتوں میں ذمہ دار حکومت ہوگی۔ ہمارا فیصلہ حکومتی عمل کے ردعمل میں ہوگا۔ ہم اپنے پتے ابھی شو نہیں کریں گے۔‘  
حافظ حسین احمد نے یہ بھی بتایا کہ ’حکومتی مذاکراتی کمیٹی نے مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ اسلام آباد پہنچنے کے بعد پتہ چلے گا کہ کمیٹی کے پاس کیا ہے۔‘
حکومت کے ساتھ بات چیت کے بارے میں حافظ حسین احمد نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’ابھی تک پتہ نہیں چل رہا کہ حکومت کے فیصلے کون کر رہا ہے۔ کل تو وزیراعظم نے بھی کہہ دیا کہ حافظ حمد اللہ کی شہریت منسوخ کرنے اور میڈیا پر پابندیوں کا فیصلہ کس کم بخت کا تھا؟ شاید خود ان کو بھی نہیں پتہ کہ احکامات کہاں سے آ رہے ہیں؟‘

شیئر: