Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حافظ حمداللہ شہریت کے سوال پر کیوں رو پڑے؟

حال ہی میں نادرا کی طرف سے ایلین قرار دیے گئے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سابق سینیٹر حافظ حمد اللہ اپنی شہریت کے موضوع پر بات کرتے ہوئے رو پڑے ۔
اسلام آباد کے ایک مقامی صحافی شاکر عباسی کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے سنیٹر حافظ حمداللہ کی ایک تازہ ویڈیو سامنے آئی ہے جس میں حافظ حمداللہ کو بلند آواز میں روتے اور صحافی کی جانب سے ان کو تسلی دیتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
نجی ٹی وی سے منسلک شاکر عباسی نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ یہ ویڈیو انہوں نے اس وقت بنائی تھی جب ایک پروگرام میں شرکت کے لیے سابق سینیٹر ان کے دفتر آئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ سابق سینیٹر کا رونا ان کے لیے بھی ایک شاک تھا اور وہ خاصی دیر تک صدمے کی کیفیت سے باہر نہیں نکل سکے۔
ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اپنی شہریت کے حوالے سے بات کرتے ہوئے حافظ حمد اللہ کہتے ہیں کہ ’اس طرح کسی اور کے ساتھ نہیں ہونا چاہیے حافظ حمد اللہ بھاڑ میں جائے اس کو بوری میں ڈال کر کہیں پھینک دیں لیکن ملک کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ نہیں ہونا چاہیے۔‘
’میرا بیٹا بہت محنت کر کے سلیکٹ ہوا، ایک آدمی ایک نوجوان ایک ایسی فورس میں جاتا ہے جس میں ان کو یہ معلوم ہے کہ انہیں دشمن سے لڑنا ہے اور اپنے ملک کے لیے لڑنا ہے۔‘ اس کے بعد حافظ حمداللہ کی آواز بند ہو گئی اور آنکھیں ڈبڈبا گئیں۔ جب رپورٹر نے تسلی دینے کے لیے ان کے کندھے پر ہاتھ رکھا تو وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دیے۔ رپورٹر شاکر عباسی کہتے ہوئے سنائی دے رہے ہیں کہ سارا پاکستان آپ کے ساتھ ہیں آپ دلیر آدمی ہیں۔ یقینا یہ تکلیف دہ بات ہے۔
کچھ دیر بعد انہوں نے خود کو سنبھالتے ہوئے کہا کہ ایک آدمی کو جب دیوار سے لگا دیں تو پھر وہ کچھ بھی کر سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں پتا ہے کہ ان کے بولنے کی وجہ سے ایسا ہوا ہے۔

سینٹر حافظ حمداللہ جے یو آئی ف کی ٹکٹ پر سینٹر منتخب ہوئے تھے (فوٹو:سوشل میڈیا)

حافظ حمد اللہ نے کہا کہ ایک آدمی کو اتنا مجبور کر دیں تو وہ کیا کرے گا۔ انہوں نے سوال کیا کہ اب کون نادرا پر اعتماد کرے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ محبت کا پیغام نہیں ہے۔ لوگوں کو کیا پیغام دیا جا رہا ہے۔
 یاد رہے کہ پیر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق سینیٹر حافظ حمد اللہ کی شہریت منسوخی کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے نادرا حکام سے کہا کہ دوہفتوں میں دستاویزات کے ساتھ تفصیلی جواب جمع کرایا جائے۔
ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی عدالت میں حافظ حمد اللہ کے وکیل کامران مرتضیٰ نے موقف اختیار کیا تھا ان کے مؤکل سینیٹر رہے، سابق صوبائی وزیر رہے، چھ بار الیکشن لڑا ہے اور ان کے خاندان کے تمام افراد پاکستانی پاسپورٹ رکھتے ہیں لیکن شناختی کارڈ بلاک کر دیا گیا۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ کس نے شناختی کارڈ بلاک کیا؟ وکیل نے جواب دیا کہ نادرا نے حافظ حمد اللہ کی پاکستانی شہریت ختم کر دی ہے جبکہ ان کا ایک بیٹا آرمی میں بھی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اگر کوئی اپنا خون اس ملک کے لیے قربان کرسکتا ہے تو وہ کیسے محب وطن شہری نہیں۔  
اس سے قبل اردو نیوز کے ساتھ ایک انٹرویو میں حافظ حمداللہ نے کہا تھا کہ ان کو حکومت کے خلاف بولنے کی سزا دی جا رہی ہے کیونکہ ان کی شہریت میں کسی قسم کے شک کی گنجائش ہی نہیں تھی۔ ’میں سنہ 1968 میں چمن میں پیدا ہوا جہاں میرے والد پڑھاتے تھے۔ پھر پرائمری بھی وہیں سے پڑھی اور حفظ کیا۔ اس کے بعد میٹرک، ایف اے سب یہاں سے کیا۔ زندگی میں صرف ایک بار افغانستان چند دن کے لیے گیا جب وہاں طالبان کی حکومت تھی۔
انہوں نے کہا کہ ان کے آٹھ دیگر بھائی نادرا کے شناختی کارڈ رکھتے ہیں اور پاکستانی شہری ہیں تو وہ کیسے افغان ہو گئے۔ 
ایک سوال کے جواب حافظ حمداللہ کہا کہ ان کے سارے بیٹے زیر تعلیم ہیں تاہم ایک بیٹا آرمی میں بھرتی ہو گیا ہے اور اس وقت کاکول میں زیرتربیت ہے۔
انہوں نے پیمرا کی طرف سے ان کے ٹی وی پروگراموں میں آنے پر پابندی کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر میں پاکستانی شہری نہ بھی ہوتا تو ٹی وی پر آنے سے پاکستان کا قانون کسی طرح مانع نہ تھا۔

شیئر: