Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نواز کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم

حکومتی وکیل نے ن لیگ کے وکیل کی جانب سے جمع کرائے گئے حلف نامے پر اعتراض کیا (فوٹو: روئٹرز)
لاہور ہائی کورٹ نے ضمانتی بانڈز کی شرط ختم کرتے ہوئے ن لیگ کے تحریری حلف نامہ جمع کروانے پر نواز شریف کا نام غیر مشروط طو پر ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دے دیا ہے۔
سنیچر کو اپنے فیصلے میں عدالت نے نواز شریف کو عبوری ریلیف دیتے ہوئے چار ہفتے کے لیے علاج کی غرض سے بیرون ملک جانے کی اجازت دی ہے۔ مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے نواز شریف کا نام غیر مشروط طور پر ای سی ایل سے نکالنے کی درخواست کی تھی۔
عدالتی فیصلے کے مطابق ضمانتی بانڈز کے حوالے سے وفاقی کابینہ کی جانب سے جاری کیے گئے میمورنڈم کو شہباز شریف کی طرف سے چیلنج کیا گیا تھا جس پر آئندہ سماعت جنوری 2020 کے تیسرے ہفتے میں ہوگی۔
مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف کے مطابق عدالت نے نواز شریف کو علاج کی غرض سے بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی ہے۔ ’حکومت کی پیدا کی گئی آخری رکاوٹ بھی عدالت عالیہ نے ختم کر دی ہے۔ ’پوری قوم کا دل کی اتھاہ گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔‘
شہباز شریف نے عدالت میں ایک بیان حلفی جمع کروایا ہے جس میں لکھا گیا ہے۔ ’میں حلفیہ اقرار کرتا ہوں کہ میرے بھائی نواز شریف چار ہفتوں میں واپس آجائیں گے یا ڈاکٹروں کی طرف سے حتمی طور پر  صحت مند قرار دیے جانے کے بعد واپس آئیں گے۔

نواز شریف اور شہباز شریف نے عدالت میں حلف نامے جمع کروائے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

حلفیہ بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ شہباز شریف سفارتخاںے کے ذریعے نواز شریف کی تصدیق شدہ میڈیکل رپورٹس عدالت میں جمع کرائیں گے۔
بیان میں یہ بھی لکھا ہے کہ ’میں حلفیہ اقرار کرتا ہوں اگر وفاقی حکومت کو محسوس ہو کہ نواز شریف صحت مند ہیں اور سفر کے قابل ہیں تو وفاقی حکومت کے نمائندے کو حق حاصل ہوگا کہ وہ نواز شریف کے ڈاکٹرز سے ملاقات کر سکے۔‘
عدالت میں ایک بیان حلفی نواز شریف کی طرف سے بھی جمع کروایا گیا ہے جس میں لکھا ہے کہ ’میں حلفیہ اقرار کرتا ہوں کہ سابقہ ریکارڈ کے مطابق میں پاکستان واپس آؤں گا۔ واپس آکر میں عدالت میں زیر سماعت کیسسز کا سامنا کروں گا۔
حلفیہ بیان کے مطابق ’اگر صحتیاب ہو گیا تو میں چار ہفتوں میں پاکستان واپس آجاؤں گا۔ میں اپنے بھائی کی طرف سے دیے جانے والے حلفیہ اقرار کا بھی پابند ہوں۔‘

’نواز شریف کا بیرون ملک جانے کا معاملہ انسانی اور قانونی ہے‘

وزیراعظم عمران خان کی معاون خصوصی فردوس عاشق اعوان نے کہا ہے کہ نواز شریف کا بیرون ملک جانے کا معاملہ انسانی اور قانونی ہے لیکن اسے سیاسی بنا دیا گیا ہے۔

’وزیراعظم کے انسانی ہمدردی کا مظاہرہ کرنے پر مسلم لیگ ن نے ان کی کردار کشی کی‘

لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد سنیچر کو میڈیا کے ساتھ بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’بدقسمتی سے حکومت کی طرف سے خیر سگالی کے اظہار پر شک کیا گیا اور اس کا مذاق اڑایا گیا۔‘
ان کے بقول وزیراعظم نے حکومتی ترجمانوں کو نواز شریف کی صحت پر بیان بازی سے بھی منع کیا تھا۔
معاون خصوصی کا کہنا تھا کہ ’کابینہ نے نواز شریف کے علاج کے لیے بیرون ملک جانے پر کوئی اعتراض نہیں کیا تھا بلکہ شریف فیملی کے سابقہ ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے ضمانتی بانڈز کی شرط رکھی تھی کیونکہ یہ پہلے بھی معاہدہ کر کے باہر گئے تھے لیکن انہوں اس کو توڑنے کی کوشش کی۔‘
فردوس عاشق اعوان نے مزید کہا کہ وزیراعظم کی طرف سے انسانی ہمدردی کا مظاہرہ کرنے پر مسلم لیگ ن نے ان کی کردار کشی کی جو بہت افسوس ناک ہے اور حکومت اس کی مذمت کرتی ہے۔

’نواز شریف کے سفر کی تیاریاں ہنگامی بنیادوں پر شروع‘

مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ نواز شریف کو علاج کے لیے بیرون ملک منتقل کرنے کی تیاریاں ہنگامی بنیادوں پر شروع کر دی گئی ہیں۔

مریم اورنگزیب کے مطابق بیرون ملک سفر کی تیاری کے لیے 48 گھنٹے درکار ہیں (فوٹو: پی آئی ڈی)

ان کے مطابق سابق وزیراعظم کو لمبے ہوائی سفر کے لیے طبی طور پر تیار کرنے کے لیے ڈاکٹروں کو 48 گھنٹے درکار ہیں۔ ’بیرون ملک فضائی سفر کے دوران نواز شریف کے پلیٹ لیٹس برقرار رکھنے اور دل کی کسی ممکنہ تکلیف سے بچاؤ کے لیے ڈاکٹر اپنی تیاروں میں مصروف ہیں۔‘
ترجمان کے مطابق ڈاکٹر اس امر کو یقینی بنانے کی تگ و دو میں ہیں کہ دوران سفر کسی ممکنہ ایسی طبی پیچیدگی سے بچا جاسکے جو نواز شریف کی زندگی کے لیے مہلک ثابت ہو سکتی ہو۔‘
’نواز شریف کب جائیں گے اور کب آئیں گے؟‘
لاہور ہائی کورٹ میں نواز شریف کا نام غیر مشروط طور پر ای سی ایل سے نکالنے کی درخواست پر سماعت کے دوران شہباز شریف کے وکیل کی جانب سے جمع کروائے جانے والے حلف نامے پر وفاقی وکیل نے اعتراض اُٹھایا تھا۔
جس کے جواب میں بینچ نے کہا تھا کہ عدالت اپنا ڈرافٹ تیار کر کے فریقین وکلا کو دے گی اور اگر وہ اس پر متفق ہوئے تو اس کی روشنی میں فیصلہ کیا جائے گا۔

شہباز شریف نے کہا کہ آخری رکاوٹ بھی عدالت نے ختم کر دی ہے (فوٹو: اے ایف پی)

شہباز شریف کے وکیل کی جانب سے جمع کروائے گئے حلف نامے کے جواب میں وفاقی حکومت کے وکیل نے کہا تھا کہ اس ڈرافٹ میں یہ نہیں لکھا گیا کہ نواز شریف کب جائیں گے، کب آئیں گے؟
وکیل کے مطابق ’اسلام آباد ہائی کورٹ نے خاص مدت کے لیے نواز شریف کی ضمانت منظور کی ہے۔ 25 نومبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں نواز شریف کیس کی میں اپیل بھی مقرر ہے اور نواز شریف کو عدالت کے سامنے پیش ہونا ہے۔‘
وفاقی وکیل نے سوال اُٹھایا کہ ’اگر نواز شریف نہیں آتے تو کیا ہوگا، اس لیے اینڈیمنٹی بانڈ مانگے گئے ہیں۔‘
وفاقی وکیل کو جواب دیتے ہوئے جسٹس علی باقر نجفی نے کہا کہ یہ عدالت حکومتی شرائط سے متعلق فیصلہ کرے گی۔ ’ہمارے خیال میں یہ درست نہیں کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ضمانت  دی اور حکومت نے شرائط عائد کر دیں۔‘

ہائی کورٹ اپنا ڈرافٹ تیار کرکے فریقین کو دے گی (فوٹو: اردو نیوز)

عدالت نے یہ بھی کہا کہ ’اگر نواز شریف کی صحت ٹھیک ہو جاتی ہے تو وفاقی حکومت کا بورڈ ان کا معائنہ کر سکتا ہے۔‘
’نواز شریف واپس آکر مقدمات کا سامنا کریں گے‘
قبل ازین عدالت کے کہنے پر نواز شریف کے وکیل نے تحریری بیان حلفی کا مسودہ جمع کرایا تھا۔ اس بیان حلفی میں صحت یابی کے بعد نواز شریف کی وطن واپسی کی یقین دہانی کرائی گئی تھی۔
عدالت نے نواز شریف کا نام غیر مشروط طور پر ای سی ایل سے نکالنے سے متعلق درخواست کی سماعت کے دوران نواز شریف کے وکیل سے بیان حلفی مانگا تھا۔
بیان حلفی میں لکھا گیا ہے کہ نواز شریف پاکستانی ڈاکٹروں کی سفارش پر بیرون ملک جا رہے ہیں اور صحت مند ہوتے ہی وطن واپس آئیں گے۔ ’ڈاکٹر جیسے ہی اجازت دیں گے ایک لمحہ ضائع کیے بغیر نواز شریف وطن واپس آئیں گے اور مقدمات کا سامنا کریں گے۔‘
سماعت کی ابتدا میں عدالت نے نواز شریف کے وکیل سے استفسار کیا کہ آیا سابق وزیراعظم ضمانت کے طور پر کچھ دینا چاہتے ہیں یا نہیں؟
اس پر وفاقی حکومت کے وکیل نے کہا کہ اگر نواز شریف حکومت کو بانڈز جمع نہیں کرانا چاہتے تو عدالت میں جمع کرا دیں۔
عدالت نے مزید استفسار کیا کہ نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے پر جو شرائط لگائی گئی ہیں وہ علیحدہ کی جاسکتی ہیں یا کوئی چیز میمورنڈم میں شامل یا اس میں سے نکالی جا سکتی ہے؟
وفاقی وکیل سے یہ بھی پوچھا گیا کہ اگر وزارتِ داخلہ کی جانب سے جاری کیا گیا میمورنڈم انسانی بنیادوں بنایا گیا تھا۔
سات ارب روپے کے انڈیمنٹی بانڈز اور نواز شریف کی واپسی کے دورانیے کے بارے میں عدالت نے سوال کیا کہ اگر دونوں جانب سے فریقین اس میں کمی کر سکتے ہیں یا سابق وزیر اعظم کے واپس آنے سے متعلق  کسی رعایت پر بات ہوسکتی ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان مسلم لیگ نواز کے رہنماؤں کی جانب سے کہا جارہا ہے کہ انڈیمنٹی بانڈز کی مد میں کوئی رقم جمع نہیں کروائی جائے گی۔
واپسی کی ضمانت
سماعت کے دوران نواز شریف کے وکیل امجد پرویز نے کہا تھا کہ ’میں انڈر ٹیکنگ دینے کے لیے تیار ہوں نواز شریف صحت یاب ہونے کے بعد وطن واپس آجائیں گے۔‘
اس پر عدالت کی طرف سے سوال آیا، ’آپکی انڈر ٹیکنگ کا کیا طریقہ کار ہے؟‘
نواز شریف کے وکیل نے اپنی بات دہراتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے موکل کی جانب سے عدالت کو یقین دہانی کراتے ہیں کہ نواز شریف جب بھی صحت مند ہوئے ملک واپس آ جائیں گے۔
’ہم عدالت میں انڈر ٹیکنگ دیتے ہیں کہ نواز شریف صحت یاب ہو کر پاکستان آئیں گے۔‘
اس پر عدالت نے پوچھا، ’کیا شہباز شریف یقین دہانی کراتے ہیں کہ وہ نواز شریف کو واپس لائیں گے؟‘ 

شہباز شریف کی جانب سے جمع کرایا گیا بیان حلفی

شہباز شریف نے کہا، ’اللہ تعالی نواز شریف کو صحت دے وہ ضرور واپس آئیں گے۔‘
وکیل کی طرف متوجہ ہوکر عدالت نے وفاقی حکومت کا موقف پوچھا۔
انہوں نے کہا، ’حکومت بھی نواز شریف سے انڈر ٹیکنگ ہی مانگ رہی ہے کہ نواز شریف لکھ کہ دیں۔ تاکہ اگر نواز شریف واپس نہیں آتے تو قانون کے مطابق کاروائی کی جاسکے۔‘
عدالت نے کہا، ’اگر آپ انسانی بنیادوں پر نواز شریف کو جانے کی اجازت دے رہے ہیں تو پھر شرائط لگانے کی کیا ضرورت ہے۔‘
ہم نواز شریف اور شہباز شریف سے لکھ کر انڈرٹیکنگ لے لیتے ہیں وفاق اس انڈر ٹیکنگ کو دیکھ لے۔ یہ انڈر ٹیکنگ عدالت میں دی جائے گی  اگر انڈر ٹیکنگ پر پورا نہیں اترا جاتا تو توہین عدالت کا قانون موجود ہے۔‘
عدالت کے چھ سوال
سنیچر کو ہائی کورٹ میں سماعت شروع ہوئی تو عدالت نے فریقین کے سامنے چھ سوال رکھے۔ یہ سوال کچھ یوں تھے۔
کیا جو شرائط لگائی گئی ہیں وہ ہٹائی جا سکتی ہیں؟
کیا کوئی چیز میمورنڈم میں شامل کی جا سکتی ہے یا نکالی جا سکتی ہے؟
کیا ضمانتی بانڈز کا میمورنڈم انسانی بنیادوں پر جاری کیا گیا؟
کیا فریقین اپنے انڈیمنٹی بانڈز میں کمی کر سکتے ہیں؟
کیا فریقین نواز شریف کے واپس آنے سے متعلق یا کوئی رعایت کی بات کر سکتے ہیں؟
کیا نواز شریف کا نام ای سی ایل میں شامل ہونا بھی چاہیے تھا یا نہیں؟
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ میں شامل ہوں

شیئر: