Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا مسلم لیگ ن کے لیے برف پگھل رہی ہے؟

سیاسی مبصرین ن لیگ میں شہباز شریف اور نواز شریف کے بیانیے میں فرق بھی تلاش کرتے رہے تھے۔ فوٹو: اے ایف پی
سابق وزیراعظم نواز شریف کی علاج کے لیے لندن روانگی کے حوالے سے جہاں وزیراعظم اور ان کے وزرا نے اپنے بیانات میں کچھ غصے کا اظہار کیا ہے وہیں مسلم لیگی حلقے اس بات پر خوشی کا اظہار کر رہے ہیں کہ ان کی جماعت کے لیے حالات سازگار ہو رہے ہیں۔
متعدد حالیہ واقعات، جیسے کہ حکومت کی منشا کے خلاف نواز شریف کا بغیر ضمانتی بانڈ جمع کروائے باہر چلے جانا، پھر وزیراعظم کا غصے بھرا خطاب اور مولانا فضل الرحمن کا اعتماد بھرے لہجے میں یہ کہنا کہ ہم اسلام آباد سے ایسے ہی (خالی ہاتھ) واپس نہیں آئے اس بات کا اشارہ دیتے ہیں کہ مسلم لیگ نواز کے لیے ماحول بہتر ہوا ہے۔

 

نیب چیئرمین کی طرف اس بیان کو کہ ہواؤں کا رخ بدل رہا ہے اور حکومت احتساب سے بری الذمہ نہیں، مبصرین تبدیلی قرار دے رہے ہیں۔ دوسری طرف تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ نواز شریف کے بیرون ملک جانے سے ان کی پارٹی کو عارضی سیاسی نقصان بھی ہو سکتا ہے خاص طور پر اگر نواز شریف لمبے عرصے تک واپس نہیں آتے۔

ن لیگ کی ترجمان کا کہنا تھا کہ مریم نواز ابھی اپنے والد سے جدائی کے صدمے میں ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

سنہ 2001  میں اس وقت کے فوجی حکمران پرویز مشرف کے ساتھ ایک معاہدے کے بعد نواز شریف اور ان کا خاندان ملک سے سعودی عرب چلا گیا تھا تو پارٹی کی قیادت  قائمقام صدر جاوید ہاشمی کو سونپی گئی تھی۔ آج 2019 میں نواز شریف کے علاج کے لیے باہر جانے سے ان کی جماعت ایک بار پھر تاریخی دوراہے پر کھڑی ہو گئی ہے۔  پارٹی کے دیگر اہم رہنما شاہد خاقان عباسی، رانا ثنا اللہ اور حمزہ شہباز بھی اس وقت حراست میں ہیں جبکہ مریم نواز ضمانت پر ہیں مگر رہائی کے باجود خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ تاہم چند تجزیہ کار اس عارضی خاموشی کو بھی پارٹی کے حق میں بہتر قرار دے رہے ہیں۔

اسٹیبلشمنٹ اور نواز لیگ کے درمیان برف پگھل گئی ہے

تجزیہ کار سہیل وڑائچ کے مطابق مسلم لیگ ن کے لیے نواز شریف کا باہر جانا ایک بڑی خبر ہے۔ پارٹی ابھی جدوجہد کے مرحلے پر ہے اور شہباز شریف اپنا کام جاری رکھیں گے تاکہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ پارٹی کے تعلقات کو بہتر بنائیں۔
’برف پگھل گئی ہے۔ نواز شریف شریف جیل سے بھی ہو آئے ہیں اور باہر بھی چلے گئے ہیں۔ اب نہیں لگتا کہ اسٹیبلشمنٹ اور پارٹی ایک دوسرے کے درپے ہوں اور دونوں اطراف سے تعلقات میں بہتری آئی ہے۔‘
ابھی پی ٹی آئی کی گورنمنٹ ہے مگر نواز لیگ کے لیے بڑا ریلیف ہے جس میں عدالتوں کا کردار ہے اور کہیں نہ کہیں اسٹیبلشمنٹ کی بھی آشیر باد ہو گی۔

سیاسی مبصرین کے مطابق نواز شریف جلد واپس نہ آئے تو ان کی پارٹی کو نقصان ہوگا۔ فوٹو: اے ایف پی

اس سوال پر کہ کیا نواز شریف کی عدم موجودگی سے پارٹی کو نقصان ہو گا، سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ ابھی کون سا الیکشن ہونا ہے جو پارٹی کو قیادت کی یہاں موجودگی کی ضرورت ہو۔ اگر اسمبلی کے اندر بھی تبدیلی آئی تو نواز لیگ کو وزارت عظمی نہیں ملنی بلکہ پی ٹی آئی یا کسی حکومتی جماعت کو ہی ملنی ہے۔
مسلم لیگ نواز کے لیے بہترین حکمت عملی اس وقت اپنے وجود کو قائم رکھنا ہی ہے اور وہ اسی پر قائم ہیں۔

نواز شریف کی واپسی پارٹی کے لیے ضروری

سیاسی تجزیہ کار ڈاکٹر مہدی حسن کے خیال میں نواز شریف کے بعد اگر مریم نواز بھی باہر چلی گئیں تو انکی  پارٹی کے بیانیے کو نقصان پہنچے گا اور اس کی وہ طاقت نہیں رہے گی جو ابھی پنجاب میں حاصل ہے۔ بی کلاس کی لیڈرشپ سے نواز لیگ کی مقبولیت پر فرق پڑے گا۔
تاہم ان کے مطابق نوازشریف کی صحت یقینا پارٹی کے لیے مقدم تھی اور اگر وہ ایک ماہ بعد ہی صحتیاب ہو کر واپس آ جاتے ہیں تو پھر ان کی جماعت عوام کو یہ بتانے میں کامیاب ہو جائے گی کہ قیادت کا جینا مرنا پاکستان کے ساتھ ہے۔

تجزیہ کار سہیل وڑائچ کے مطابق مسلم لیگ ن کے لیے نواز شریف کا باہر جانا ایک بڑی خبر ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

پارٹی کی سیاسی حکمت عملی تیار

مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگزیب نے اردو نیوز کو بتایا کہ جانے سے قبل پیر کو شہباز شریف نے ایک اجلاس میں ذمہ داریاں تقسیم کی ہیں اور پاکستان میں موجود تمام رہنماؤں کو اہداف دیے ہیں۔
ایک سوال پر کہ نواز شریف کی عدم موجودگی میں کیا مریم نواز قیادت کریں گی پارٹی ترجمان کا کہنا تھا کہ نواز شریف کی صاحبزادی ابھی اپنے والد سے جدائی کے صدمے میں ہیں اور ان کی صحت کے حوالے سے پریشان بھی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مریم نواز اپنی مرحومہ والدہ کلثوم نواز  کی علالت کے دوران بھی ان کی عیادت نہیں کر پائی تھیں۔
 ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف کے جانے سے پارٹی کو سیاسی نقصان نہیں ہو گا کیونکہ پاکستان کے عوام اس وقت نواز لیگ کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پارٹی اگلے ہفتے سے ڈویژن کی سطح پر کنونشن منعقد کرے گی اور اس سلسلے میں ذمہ داری احسن اقبال کو دی گئی ہے جبکہ پارلیمانی امور کی نگرانی خواجہ آصف کریں گے۔ میڈیا کے معاملات کی ذمہ داری مریم اورنگزیب کو دی گئی ہے۔
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ میں شامل ہوں

شیئر: