Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انڈین طلبہ کی زبان پر حبیب جالب کی نظم

پولیس پر الزام ہے کہ اس نے جے این یو کے طلبہ پر تشدد کیا، فوٹو: اے ایف پی
انڈیا کی معروف جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (جے این یو) کے ایک نابینا طالب علم کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر ایک عرصے سے وائرل ہے جس میں اسے اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ اردو کے معروف شاعر حبیب جالب کی انقلابی نظم 'میں نہیں مانتا' گاتے ہوئے دیکھے جا سکتا ہے۔
گذشتہ پیر سے مذکورہ طالب علم اور ان کے دوست ایک بار پھر خبروں میں ہیں اور اس بار وہ پولیس کی زیادتیوں کا شکار ہونے کی وجہ سے خبروں میں ہیں۔
18 نومبر کو جے این یو کے طلبہ نے ہاسٹل فیس میں اضافے کے خلاف پارلیمان تک مارچ کرنے کا فیصلہ کیا کیونکہ ان کے مطابق انتظامیہ ان سے بات کرنے کے لیے تیار نہیں۔
خیال رہے کہ جے این یو کے طلبہ گذشتہ ایک ماہ سے فیسوں میں اضافے اور ہاسٹل سے متعلق نئے ضابطوں کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ انتظامیہ نے اپنی من مرضی سے فیسوں میں اضافہ کیا ہے اور جمہوری طریقہ کار کو نظر انداز کیا ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ فیسوں میں اضافہ واپس لیا جائے اور ہاسٹل کے نئے ضابطے کو ختم کیا جائے۔
رواں ماہ 11 نومبر کو یہ طلبہ اس وقت میڈیا کی نظر میں آئے جب انہوں نے جے این یو کے تیسرے کانووکیشن میں آنے والے ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ کے وزیر سے ملنے کی کوشش کی اور انہیں مبینہ طور پر کئی گھنٹوں تک گھیرے میں لیے رکھا۔
کانووکیشن میں مہمان خصوصی کے طور پر نائب صدر جمہوریہ بھی شامل ہوئے تھے۔ چونکہ کانووکیشن کا مقام جے این یو کیمپس کے باہر تھا اس لیے اس دن بھی طلبہ کا پولیس کے ساتھ تصادم ہوا تھا اور ان کو منتشر کرنے کے لیے واٹر کینن کا استعمال کیا گیا تھا۔

جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے طلبہ طلبہ فیسوں میں اضافے کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں، فوٹو: اے ایف پی)

جے این یو کے طلبہ پر 18 نومبر کو پولیس کی زیادتیوں کی بازگشت انڈیا کی پارلیمان میں بھی سنائی دی جب کانگریس، بہوجن سماج پارٹی اور ترنامول کانگریس نے طلبہ پر پولیس کی جانب سے لاٹھی چارج سے متعلق سوال اٹھایا اور اعلیٰ سطحی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔
پولیس کی زیادتیوں کا ذکر کرتے ہوئے طلبہ یونین نے کہا کہ پولیس نے نہ تو طالبات کا خیال کیا اور نہ ہی جسمانی طور پر معذور لوگوں کا۔
جے این یو طلبہ یونین کے سابق صدر این سائی بالا جی نے کہا کہ آنکھوں سے معذور ساتھی شسی بھوشن پانڈے نے پولیس کو چشمہ اتار کر دکھایا کہ وہ نابینا ہیں لیکن پھر بھی انہیں بخشا نہیں گیا اور انہیں اتنا مارا پیٹا گیا کہ انہیں ٹراما سینٹر میں داخل ہونا پڑا۔
ان کے مطابق ’پولیس کا کہنا تھا کہ نابینا ہے تو پھر مظاہرے میں کیوں شریک ہوا۔‘
طلبہ کا کہنا ہے کہ مظاہرہ کرنا کسی کا بھی بنیادی جمہوری حق ہے اس پر پولیس سوال کرنے والی کون ہوتی ہے؟
ایک صحافی انیہ شنکر نے ایک ویڈیو پوسٹ کی ہے جس میں جے این طلبہ یونین کے کونسلر ششی بھوشن کو دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ چشمہ اتار کر پولیس کو دکھا رہے ہیں۔
اس کے جواب میں عام آدمی پارٹی کے ایوان بالا یعنی راجیہ سبھا میں رکن پارلیمان سنجے سنگھ نے اپنی ایک ویڈیو پوسٹ کی اور لکھا کہ ’آج ایوان میں ہم نے پوچھا کہ یہ کون جنرل ڈائر ہے جس نے نابینا طلبہ ششی بھوشن کو پیٹا اور اس کے ساتھ انہوں نے ہیش ٹیگ لگایا کہ 'کون ہے یہ جنرل ڈائر جے این یو؟'
بہر حال بدھ کو جے این یو طلبہ یونین کے ایک وفد نے دہلی کے پولیس کمشنر سے ملاقات کی اور ان کے سامنے پولیس زیادتیوں کی شکایت کی۔
اس کے علاوہ طلبہ یونین کے مندوبین نے فروغ انسانی وسائل کی وزارت کے حکام سے ملاقات کی اور ان سے مطالبہ کیا کہ ان کی وائس چانسلر سے ملاقات کرائی جائے۔
طلبہ کا کہنا ہے کہ وہ ایک ماہ سے کوشش کر رہے ہیں لیکن وائس چانسلر ان سے ملنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ 'وہ طلبہ کو ویڈیو پیغام بھیج سکتے ہیں لیکن کیا وہ ہم سے مل نہیں سکتے۔'
گذشتہ اتوار سے ہی جے این یو سے متعلق بہت سے ہیش ٹيگ سوشل میڈیا پر ٹرینڈ کر رہے ہیں اور اس حوالے سے آرا واضح طور پر تقسیم ہیں۔

طلبہ کا مطالبہ ہے کہ فیسوں میں اضافے کا فیصلہ واپس لیا جائے، فوٹو: اے ایف پی

کچھ لوگ اس کی حمایت کر رہے ہیں تو کچھ اس کی مخالفت میں اترے ہوئے ہیں۔ اگر ایک طرف اسے جمہوری اقدار کا علم بلند کرنے کا مرکز کہا جاتا ہے تو دوسری جانب اسے ’غدار وطن اور ٹکڑے ٹکڑے گینگ‘ کہا جاتا ہے۔
دراصل جے این یو شروع سے ہی مزاحمت کی علامت رہا ہے۔ اس نے ایمرجنسی کے دورمیں 77-1975 کے دوران کانگریس کی مخالفت کی تھی۔
یہاں تک کہ اس وقت کی وزیراعظم اندرا گاندھی کو کبھی کیمپس میں آنے کی اجازت نہیں دی۔ جب سے مودی حکومت اقتدار میں آئی ہے جے این یو مسلسل سرخیوں میں ہے حکومت میں شامل افراد آئے دن اس کے خلاف بولتے رہتے ہیں۔

شیئر: