Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’خوابوں کی شہزادی کی شادی کے لیے شرائط نے ہوش اڑا دیے‘

شرائط دیکھ کر سعودی نوجوان شادی کے نام سے گھبرانے لگے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی
 سعودی عرب میں دلہنوں کی جانب سے نکاح ناموں میں ہوشربا شرائط دیکھ کر سعودی نوجوان شادی کے نام سے گھبرانے لگے ہیں۔
البلاد اخبار کے سروے کے مطابق نکاح ناموں سے زیادہ طلاق نامے عدالتوں سے جاری ہونے لگے ہیں۔ اس صورتحال نے معاشرے میں خطرے کا الارم بجا دیا ہے۔
 24سالہ سعودی شہری احمد نے بتایا ’ وہ نجی ادارے کا ملازم ہے۔ شادی کے خواب دیکھ رہا تھا۔ بالاخر اسے خوابوں کی شہزادی مل گئی لیکن جب اس نے نکاح کے لیے شرائط پیش کیں تو میرے ہوش اڑ گئے‘۔ 

نکاح ناموں سے زیادہ طلاق نامے عدالتوں سے جاری ہونے لگے ہیں۔فوٹو: اے ایف پی

 ’پہلی شرط یہ رکھی کہ اگر ان بن ہوگئی اور تم نے طلاق دی تو ایسی صورت میں 5لاکھ ریال دینا ہوں گے۔ دوسری شرط یہ ہے کہ تمہارے گھر والوں کے ساتھ نہیں رہوں گی میرے لیے الگ گھر کا انتظام کرنا ہوگا۔ تیسری شرط یہ لگائی کہ ہر سال کسی نہ کسی یورپی ملک لے جاﺅ گے‘۔
احمد کا کہناہے ’ میں نے شادی سے توبہ کرلی۔ ایسی شادی سے کیا فائدہ جس کے نتیجے میں میرا بال بال قرضوں میں جکڑ جائے‘۔
 البلاد کے مطابق سعودی نوجوان احمد تنہا نہیں جس نے خوابوں کی شہزادی کی شرائط سن کر شادی کا ارادہ ترک کردیا ہو۔بعض لڑکیاں نکاح نامے میں ایسی شرائط درج کراتی ہیں جنہیں سن کر نوجوان کان پکڑ لیتے ہیں۔ بعض ہچکچاہٹ کے ساتھ شرائط قبول کرلیتے ہیں اور کئی ایسے ہیں جو شادی سے توبہ کرلیتے ہیں۔
 اخبار نے وزارت انصا ف سے جاری اعدادوشمار کے حوالے سے بتایا طلاق نامے نکاح ناموں سے زیادہ جاری ہوئے ہیں۔ مکہ مکرمہ ریجن میں ایک ماہ کے دوران 711نکاح ناموں کا اندراج ہوا جبکہ 900طلاق نامے ریکارڈ پر آئے ہیں۔

بعض سعودی وکلا کا کہناہے کہ نکاح نامے میں شرائط کا اندراج ضروری نہیں۔ فوٹو :ٹوئٹر

 سماجی اور قانونی امور کے ماہرین کیا کہتے ہیں
بعض سعودی وکلا کا کہناہے کہ نکاح نامے میں شرائط کا اندراج ضروری نہیں۔ یہ نیا رواج ہے۔دلہا اوردلہن کوئی بھی شرائط کا اندراج کراسکتا ہے ۔
بعض وکلا کے مطابق لڑکی کا حق ہے کہ وہ نکاح نامے میں اپنی شرائط کا اندراج کرائے۔ وعدوں پر انحصار نہ کرے۔
قانونی مشیر ڈاکٹر محمد بن علی آل سلیمان نے کہا ’ بعض لڑکیاں نکاح نامے میں عجیب و غریب شرائط شامل کرانے کی باتیں کرنے لگی ہیں۔ یہ روایتی مطالبات سے یکسر مختلف ہیں‘۔
’ ایک شرط یہ ہوتی ہے کہ شادی کے بعد تعلیم مکمل کرنے میں رکاوٹ نہیں ڈالی جائے گی۔ ملازمت سے نہیں روکا جائے گا۔ طلاق کا حق بیوی کے ہاتھ میں ہوگا۔ شوہر کو انگریزی میں دسترس ہونی چاہیے۔ تقریب فلاں شادی گھر میں منعقد کی جائے‘۔
ایک او روکیل راشد العمرو کاکہنا ہے ’ لڑکی وعدوں پر انحصار نہ کرے۔ زندگی کے حالات بدلتے رہتے ہیںیہ نہیں کہا جاسکتا کہ فلاں شرط تحریر کی جائے اور فلاںنظرانداز کردی جائے‘۔
’بعض شرائط معقول ہوتی ہیں۔ مثال کے طورپر گھر کا انتظام اور ملازمت کی اجازت لیکن حد سے زیادہ مہر کا مطالبہ، موبائل اور کمپیوٹر پاس ورڈز بتانا،نوجوانوں کے پروگرام میں حصہ نہ لینا ایسی شرائط ہیں جو قابل عمل نہیں‘۔
ماہر سماجی امور ڈاکٹر شجاع القحطانی کے مطابق غیر معمولی شرائط کا اندراج یہ پیغام دیتا ہے کہ فریقین میں اعتبار کا رشتہ نہیں۔
  • واٹس ایپ پر سعودی عرب کی خبروں کے لیے ”اردو نیوز“ گروپ جوائن کریں

شیئر: