Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’یہی فرماتے جائیں گے‘

عمران خان کہتے ہیں کہ وہ پانچ سال تک یہی دہراتے رہیں گے کہ ماضی والوں نے کیا خرابہ کیا۔ فوٹو اے ایف پی
1980 کی دہائی کے شروع کی بات ہے۔ نیا نیا جرنلزم شروع کیا تھا۔ نیوز روم میں ایک سینئر ساتھی تھے، نہایت بذلہ سنج۔ ایک دن دیکھا کہ کسی نو آموز کو پاس بٹھا کر اسے کامیابی کے گر بتارہے ہیں۔
فرمایا، تم کچّی نوکری چاہتے ہو یا پکیّ۔ نو آموز نے بتایا جی  پکیّ۔ اچھا تو میں گر بتاتا ہوں، پلّے سے باندھ لو۔ نوکری پکی ہوجائے گی، سینئر نے کہا۔
نو آموز نے اشتیاق سے کہا، بتایئے۔
بولے، دیکھو کبھی کام مت کرنا۔ نو آموز چونکا، سر یہ کیا کہ رہے ہیں۔ بولے، سنو۔ کام کرو گےتو غلطی ہو گی اور غلطی ہوگی تو نوٹس آئے گا، نوٹس آئیں گے تو فائل میں لگیں گے۔ یوں فائل خراب ہو گی اور نوکری خطرے میں پڑ جائے گی۔ کام نہیں کروگے تو غلطی کہاں سے ہو گی۔ غلطی نہیں ہو گی تو فائل صاف ستھری رہے گی۔
اس سچّے لطیفے کا حالات حاضرہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بس نہ جانے کیوں یونہی بیٹھے بٹھائے یاد آ گیا۔
البتہ حالات حاضرہ یوں ہیں کہ وزیر اعظم نے صاف گوئی سے کام لیتے ہوئے اپنے باقی کے ساڑھے تین سال کا لائحہ عمل بتا دیا ہے۔ خبر کے مطابق انہوں نے پانچ سال کے الفاظ استعمال کیے۔ لگ بھگ سوا، ڈیڑھ سال تو گزار ہی چکے۔
ڈیجیٹل وژن کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عوام پانچ سال مجھ سے سنتے رہیں گے کہ ہمیں کتنا بڑا خسارہ ملا اور ماضی کی حکومتوں نے کتنی کرپشن کی۔ اس فقرے سے بالکل متصل یہ بھی فرمایا کہ خوشیوں کا دور آنے والا ہے۔ یعنی وہ فرما رہے ہیں کہ میں پانچ سال تک یہی کہتا رہوں گا کہ ماضی والوں نے کیا خرابہ برپا کیا اور خوشیوں کا دور آنے والا ہے۔

بجلی گیس کے نرخ بڑھنے سے بہت سوں کی ایک چوتھائی تنخواہ ویسے ہی کم ہو گئی ہے۔ فوٹو اے ایف پی

بہت خوب لائحہ عمل ہے یعنی باقی مدت بھی وہ یہی فرماتے فرماتے گزار دیں گے۔ انہوں نے کرنا کیا ہے،  یہ پانچ سال بعد بتائیں گے۔ اور خوشیاں کب آئیں گی، اس کا ٹائم ٹیبل بھی پانچ سال بعد دیں گے۔
برسبیل گفتنی، ان کے گورنر سٹیٹ بینک آٹھ دس دن پہلے پریس کانفرنس میں ایک سوال پر فرما چکے ہیں کہ اچھے دن کب آئیں گے، اس کا ٹائم ٹیبل نہیں دیا جا سکتا۔
لگتا ہے، کامیابی کا یہ گر انہوں نے کسی ’گمنام‘ سینئر سے سیکھا ہے۔ اس میں ناکامی کا کوئی سوال ہی نہیں اٹھتا۔ پانچ سال اسی فرمانے میں گزر جائیں گے۔ ناکامی کا سوال کچھ کرنے کی صورت میں اٹھتا ہے کچھ فرمانے میں نہیں۔
خیر ایسا نہیں ہے کہ حکومت نے کچھ نہ کرنے کی قسم کھا رکھی ہے۔ ابھی پچھلے ہفتے اس نے پٹرول کی قیمت میں 25 پیسے کی گراں قدر کمی کی ہے۔ ریلیف ملا، چاہے چودہ مہینے بعد ملا اور چاہے پچیس پیسے ہی۔
 ایک خبر یہ ہے کہ وزیراعظم نے بڑھتی ہوئی مہنگائی کا نوٹس لیتے ہوئے فیصلہ کیا ہے کہ مہنگائی پر کنٹرول کے لیے ٹاسک فورس کا اجلاس ہر ہفتے ہوا کرے گا۔
خبر سے کیا ’راز‘ آشکار ہوتا ہے؟

وزیراعظم نے مہنگائی پر قابو پانے کے لیے ٹاسک فورس کا اجلاس ہر ہفتے بلانے کا فیصلہ کیا ہے۔ فوٹو اے ایف پی

یہی کہ وزیراعظم کے خیال میں کچھ تخریبی قوتیں مہنگائی پیدا کر کے عوام کو ریلیف دینے کی ان کی کوشش ناکام بنارہی ہیں۔ یعنی وزیراعظم اس بات سے لاعلم ہیں کہ مہنگائی تو خود حکومت لائی۔ بجلی کے بل تین گنا بڑھ گئے تو ہر وہ شے جو بجلی استعمال کرنے والے کارخانے بناتے ہیں اسی حساب سے مہنگی ہوگئی۔ اسی طرح پٹرول گیس مہنگا ہونے سے ٹرانسپورٹ سے لے کر تندور کے نان تک ہر شے کے نرخ بڑھے۔
اندیشہ ہے کہ وزیر اعظم سے یہ بات بھی کسی نے چھپائی ہوگی کہ بجلی گیس کے نرخ بڑھنے سے بہت سوں کی ایک چوتھائی اور بہت سوں کی ایک تہائی تنخواہ تو ویسے ہی کم ہو گئی ہے۔ کھاد اور آبیانہ مہنگا ہونے سے سبزیاں مہنگی ہو گئیں۔
ٹاسک فورس اب کیا سبزی فروشوں کو پکڑے گی؟ ٹاسک فورس کیا کرے گی، کچھ پتہ نہیں۔
زیادہ قابل عمل فارمولا تو حکومت کے ایک وزیر نے دے دیا۔ یہ کہ جو شے مہنگی ہوجائے، اسے خریدنا بند کر دیں، خود ہی سستی ہو جائے گی۔ حیرت ہے کہ اس فارمولے کی دریافت کے بعد ٹاسک فورس کی ضرورت ہی کہاں رہ جاتی ہے۔
بہرحال ’سادہ لوح‘ حکومت کا یہ گمان قابل تعریف ہے کہ ’مہنگائی‘ پر اس کا نوٹس عوام کی فکر مندی دور کردے گا۔
اس دوران مزید حالات حاضرہ یہ ہیں کہ میڈیا کی توجہ لندن میں پکنے والی کسی کھچڑی پر ہے۔ مسلم لیگ کے لیڈر اپنے قائد کی تیمارداری کے لیے جمع ہوئے ہیں۔ ہیپی نیو ائیر منانے کے بعد واپس آجائیں گے۔ لیکن چلئیے، نظر رکھنے میں کوئی حرج نہیں، کیا پتہ کب کھچڑی چولہے پر دھر دی جائے۔
  • اردو نیوز میں شائع ہونے والے کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیے ’’اردو نیوز کالمز‘‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: