Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مہربانی کیجیے مگر کیسے؟

اگر آپ کو کسی کی کوئی بات بہت بری لگتی ہے، تو پورے خلوص سے بتائیں: فائل فوٹو اے ایف پی
آج آپ بہت خوش ہیں۔ آپ صبح گھر سے نکلے ہیں، آپ نے بہترین کپڑے پہنے ہوئے ہیں، بناؤ سنگھار کرکے اپنی پسندیدہ خوشبو لگا کر خود کو بہت باوقار اور پرکشش محسوس کر رہے ہیں۔
سڑک سے گزرتے ہوئے ایک کم عمر لڑکی نظر آتی ہے، اس کا لباس میلا کچیلا ہے، بال مٹی سے اٹے ہیں، چہرے پر معصومیت اور دکھ ہے اور بغل میں ایک ننگ دھڑنگ بچہ۔
قریب ہی ایک ادھیڑ عمر کی خاتون لنگڑا رہی ہیں، جن کی ظاہری وضع قطع بھی مختلف نہیں۔
چند گز دور، ایک شخص ویل چیئر پر بیٹھا ہے، عمر کم  ہے اور جسم بھی توانا ہے، لیکن ویل چیئر مجبوری کی علامت ہے۔ 
اسی طرف ایک پیارا سا کم سن بچہ پھٹے پرانے کپڑے پہنے آپ کی طرف رحم طلب نظروں سے دیکھ رہا ہے۔
یہ سب آپ کی مدد چاہتے ہیں۔
آپ ان میں سے مستحق ترین کو خیرات دیتے ہیں۔

پاکستان کی سڑکوں پر مانگنے والی اکثر خواتین پیشہ ور بھکاری ہوتی ہیں، فوٹو: اے ایف پی

اب آپ خود کو اور زیادہ باعزت اور رحم دل انسان سمجھ رہے ہیں کیونکہ آپ نے ضرورت مندوں پر مہربانی کی ہے۔
لیکن جس کو آپ مہربانی سمجھ رہے ہیں وہ سماج دشمنی بھی ہو سکتی ہے۔
آپ کی اس مہربانی کی وجہ سے ایسے لوگوں کی مدد ہوئی ہے جو بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کو استعمال کر کے بھکاری بنا دیتے ہیں۔
زیادہ بہتر ہوتا کہ آپ یہ مدد کسی عمر رسیدہ سکیورٹی گارڈ کی کر دیتے۔
آپ سوچتے ہوں گے کہ سکیورٹی گارڈ کی مدد کیوں؟ اس کے پاس تو پہلے سے نوکری ہے۔
تو اپنے اردگرد دیکھیے، آپ کے قریب ہی کسی عمارت کے باہر ایک ایسا ضعیف العمر سکیورٹی گارڈ کھڑا ہو گا، جس کے چہرے سے عیاں ہو گا کہ اب اس کو کام نہیں آرام کرنا چاہیے۔  
آپ ایسے بزرگ کا چھوٹا سا انٹرویو کیجیے۔
کتنی تنخواہ ہے؟ بچے کتنے ہیں؟ کیا بیٹیاں بیاہی گئیں؟ بیٹے پاؤں پر کھڑے ہو گئے؟

عالمی یوم مہربانی ضرورت مندوں کے ساتھ مہربانی کی ترغیب دیتا ہے، فوٹو: عرب نیوز

آپ ایسے ہی سوالات ایک ایسے نوجوان سے بھی پوچھ سکتے ہیں، جس نے ابھی ابھی سکیورٹی کا نیلا یونیفارم زیب تن کیا ہے۔
اس نوجوان کو تو ابھی کالج کے ابتدائی برسوں میں ہونا چاہیے، لیکن یہ یہاں کیوں کھڑا ہے؟
آپ کو معلوم ہو گا کہ بہت سے گارڈز کی تنخواہ ان کی اپنی خوراک کے لیے بھی ناکافی ہے۔ پھر کسی کی دو دو، تین تین بیٹیاں گھر بیٹھی جہیز کا انتظار کر رہی ہیں، کسی کے بچوں کی سکول فیسیں پوری نہیں ہو رہیں اور کسی کی بہنیں اپنے چھوٹے لاڈلے بھائی سے امید لگائے بیٹھی ہیں کہ وہ پیسے کما کر بھیجے گا تو ان کا مستقبل بنے گا۔ 
یہ مسائل نہ ہوتے تو ساٹھ پینسٹھ برس کی عمر میں کون ٹھٹھرتی سرد راتوں میں ریستورانوں کے باہر امرا کے لیے دروازے کھول رہا ہوتا یا اوائل جوانی میں کسی میدان میں کرکٹ کھیلنے کے بجائے بندوق اٹھا کر کسی بینک کے باہر پہرہ دے رہا ہوتا۔
آپ اگر ایسے افراد کی چپکے سے مالی مدد کر دیں گے، تو یہ یقیناً ایک بہت بڑی مہربانی ہو گی۔

اگر آپ افسر ہیں تو آپ کے ماتحتوں کو آپ کا خوف نہیں بلکہ آپ سے محبت ہونی چاہیے، فوٹو: پکسابے

13 نومبر کو ’عالمی یوم مہربانی‘ منایا جاتا ہے۔ یہ دن سال 1998 سے منایا جا رہا ہے تاکہ دنیا میں دوسروں کے ساتھ مہربانی کرنے کے اطوار فروغ پا سکیں۔ 
یوں تو قریباً ہر مذہب اور معاشرہ دوسروں سے مہربانی کی تلقین کرتے ہیں اور سبھی والدین اپنے بچوں کو ایسی بے شمار عادات سکھاتے ہیں جن کے ذریعے دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کی جائیں، لیکن اس کے علاوہ بھی کئی عوامل ہیں جن کے ذریعے آپ دوسروں پر مہربان ہو سکتے ہیں۔
آپ جب بھی کسی ریڑھی والے سے سبزی خریدیں، مکئی یا چنے کے دانے، آئس کریم لیں، یا کسی مزدور سے کوئی مزدوری کروائیں اور سمجھیں کہ انہوں نے خوب محنت کی ہے اور ان کی مانگی گئی اجرت جائز ہے تو دو کام کریں۔ ایک تو انہیں انتہائی عزت اور احترام سے مخاطب کریں اور دوسرا ان کو زیادہ پیسے دیں جتنے آپ با آسانی دے سکتے ہیں۔ 
آپ جب بھی کسی خاتون، بزرگ یا معذور کو بازار میں کوئی چیز بیچتے دیکھیں تو ضرور خریدیں۔

آپ بطور افسر اپنے دفتر میں بھی وہ ماحول بنائیں جو آپ اپنے گھر میں چاہتے ہیں، فوٹو: اے ایف پی 

اگر آپ کوئی کاروباری ادارہ چلا رہے ہیں یا کسی دفتر میں افسر ہیں اور آپ کے ماتحت کچھ لوگ کام کرتے ہیں، تو اپنے دفتر میں وہ ماحول بنائیں جو آپ اپنے گھر میں چاہتے ہیں۔ 
مقام روزگار لوگوں کا دوسرا گھر ہوتا ہے، آپ کے ماتحتوں کو آپ کا خوف نہیں بلکہ آپ سے محبت ہونی چاہیے، آپ کا سلوک ایسا ہو کہ وہ آپ سے جو بھی بات کرنا چاہیں، اپنے کام کے بارے میں، دفترکے بارے میں، آپ کے بارے میں، اپنے کسی مسئلے کے بارے میں، بے دھڑک کہہ لیں بغیر کسی ردعمل کے خوف کے۔ 
اور اگر آپ کو کسی ماتحت کی بات بری لگے تو فوراً ردعمل مت دیں، بلکہ بعد میں متعلقہ فرد کو اپنے پاس بلا کر اچھے ماحول میں گفتگو کریں اور پھر اس کو دوستانہ انداز میں اس کی غلطی بتا دیں۔ پھر جب تک وہ اپنا کام بہتر نہیں کر لیتا اس کی مدد کریں۔
اپنے ماتحتوں کے اچھے کام کی یکساں تعریف کریں اور کسی مخصوص کارکن کی پسندیدگی کا تاثر مت دیں، چاہے وہ آپ کے کتنا ہی قریب ہو، اس سے نہ صرف دوسروں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے بلکہ ان کی کارکردگی بھی متاثر ہوتی ہے۔

اگر آپ کہیں ماتحت ہیں تو یہ سمجھیں کہ آپ ادارے کا نہیں بلکہ اپنا کام کر رہے ہیں، فوٹو: یو این او ڈی سی

فیصلے ہمیشہ میرٹ پر کریں اور فیصلہ کرتے وقت یہ ذہن میں رکھیں کہ کیا بات ہوئی ہے یہ نہیں کہ کس نے کی ہے۔ 
لوگوں کی ترقی، شخصیت کی تعمیر، اور پیشہ وارانہ تکنیک میں بہتری کے لیے ان کی مدد کریں، ان کے سیکھنے کے لیے نئے مواقع تلاش کریں، انہیں تربیت دلوائیں، تفریح کے مواقع بھی دیں۔ آپ اپنے کارکن کو جتنا بہتر، خوش حال اور مطمئن بنائیں گے وہ آپ کے لیے اتنا ہی مفید ثابت ہو گا۔
اور اگر آپ کہیں پر ماتحت ہیں تو یہ مت سمجھیں کہ آپ اپنے باس کا یا ادارے کا کام کر رہے ہیں، یہ سمجھیں کہ آپ اپنا کام کر رہے ہیں اور اس کو دل وجان سے کریں۔ آپ کے اچھا کام کرنے سے آپ کے باس خوش ہوں نہ ہوں، آپ کی اپنی شخصیت میں بہتری آئے گی۔ اپنی ترقی کے لیے دوسروں کی ٹانگیں مت کھینچیں، دفتر میں سیاست مت کریں، بلکہ اگر آپ کا کوئی ساتھی اپنا کام نہیں کر پا رہا تو اس کی مدد کریں۔ اپنے ساتھیوں کو ان کا کریڈٹ ضرور دیں۔ 
اگر آپ کو کسی کی کوئی بات بہت بری لگتی ہے، تو اس شخص سے دوستی کر لیں، اور جب آپ کا باہمی اعتماد مضبوط ہو جائے تو پھر اسے پورے خلوص سے بتائیں کہ وہ اپنی منفی عادت درست کر لے۔
اگر آپ کسی سے دوستی کرنا چاہتے ہیں اور وہ آپ سے بات نہیں کرنا چاہتا تو آپ بھی اس سے بات مت کریں، صرف سلام دعا کا رشتہ رکھیں۔ آپ اپنے پسندیدہ شخص سے بات نہ کرکے اس کی خواہش پوری کر رہے ہیں۔ آپ اپنے پسندیدہ شخص پر مہربانی کر رہے ہیں۔

شیئر: