Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کنزرویٹوز پارٹی کی1987 کے بعد بڑی کامیابی

برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے اپنی نشست جیت لی (فوٹو: روئٹرز)
 برطانیہ میں ہونے والے عام انتخابات میں وزیراعظم بورس جانسن کی کنزرویٹو پارٹی نے نمایاں کامیابی حاصل کر لی ہے۔ 
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق جمعرات کو ہونے والے انتخابات میں کنزرویٹو پارٹی نے 650 رکنی پارلیمان میں 362 نشستوں پر کامیابی حاصل کر لی ہے۔  
جمعرات کے انتخابات کے نتائج نے برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کی راہ بھی ہموار کی ہے کو کئی برسوں سے  تعطل کا شکار تھا۔
دریں اثنا ابتدائی نتائج کے بعد وزیر اعظم بورس جانسن نے کہا ہے کہ لوگوں نے کنزرویٹو پارٹی کو بریگزٹ اور ملک کو متحد کرنے کے لیے ’مضبوط‘ مینڈیٹ‘ دیا ہے۔

جیرمی کوربن نے انتخابات کے ابتدائی نتائج آنے کے بعد کہا ہے کہ وہ آئندہ عام انتخابات میں لیبر پارٹی لی قیادت نہیں کریں گے۔ (فوٹو:اے ایف پی)

وزیر اعظم بورس جانس نےآکسبرج کا حلقہ انتخاب نسبتاً واضح اکثریت سے جیت لیا ہے۔
دوسری جانب اپوزیشن لیبر پارٹی کے لیڈر جیرمی کوربن نے انتخابات کے ابتدائی نتائج آنے کے بعد پارٹی قیادت سے علیحدگی کا اعلان کر دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ’عور فکر کے دورانیے‘ کے بعد پارٹی قیادت سے الگ ہو جائیں گے اور آئندہ عام انتخابات میں لیبر پارٹی کی قیادت نہیں کریں گے۔
جیرمی کاربائن نے اپنی لندن کی نشست دسویں مرتبہ جیت لی تاہم لیبر پارٹی کو بری طرح شکست ہوئی ہے۔  لیبر پارٹی کو 203 کے قریب نشستیں ملی ہیں اور یہ 1935 کے بعد پارٹی بدترین شکست ہے۔

لبرل ڈیموکریٹ کی رہنما جو سونسن یورپی یونین سے نہ نکلنے کی حق میں تھیں (فوٹو:اے ایف پی)

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اگر برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کی پارٹی کی کامیابی کی تصدیق ہوتی ہے تو 1987 کے بعد یہ جیت کنزرویٹو پارٹی کے لیے بہترین جیت ہو سکتی ہے۔
لبرل ڈیموکریٹ کی رہنما جو برریگزٹ معاہدہ ختم کرنے کی حق میں تھیں،انہیں انتخابات میں شکست ہوئی ہے۔

بریگزٹ معاہدے پر بروقت عمل کے امکانات روشن 

جانسن کی انتخابات میں جیت کے بعد یہ امید پیدا ہوگئی ہے کہ وہ برطانیہ کے مستقبل کے حوالے سے کئی سالوں کی بےیقینی کے بعد بریگزٹ پر عملدرآمد کے اپنے وعدے کو پورا کریں گے۔
اب وہ واضح اکثریت کی وجہ سے علیحدگی کے اس معاہدے پر جنوری 2020 کی ڈیڈ لائن تک بروقت عمل کرسکیں گے۔
برطانیہ نے یورپی یونین سے اپنے اخراج کا فیصلہ 2016ء میں ہونے والے ایک عوامی ریفرنڈم میں کیا تھا۔
برطانوی حکومت کو بریگزٹ کا عمل رواں سال 31 مارچ تک پورا کرنا تھا تاہم، 31 اکتوبر تک کے لیے سات ماہ کی توسیع کی منظوری دے دی گئی تھی۔

لیبر پارٹی نے 33 مسلم امیدواروں جبکہ کنزرویٹو پارٹی نے 22 مسلم امیدواروں کو ٹکٹ جاری کیے تھے (فوٹو:سوشل میڈیا)

برطانیہ اکتوبر میں بھی یورپی یونین سے اپنے اخراج کے لیے لازمی شرائط بروقت پوری نہیں کر سکا تھا جس کے بعد وزیر اعظم بورس جانسن کی حکومت نے برسلز میں یورپی قیادت سے اس مدت میں مزید ایک بار یعنی اگلے سال 31 جنوری تک کے لیے توسیع کی درخواست کر دی تھی، جو یورپی یونین نے منظور کر لی تھی۔

انتخابات میں کامیاب ہونے والے پاکستانی:

برطانوی انتخابات کی خاص بات یہ ہے کہ ان میں 15 پاکستانی امیدوار بھی کامیاب ہوئے ہیں۔
لیبر پارٹی نے 33 مسلم امیدواروں جبکہ کنزرویٹو پارٹی نے 22 مسلم امیدواروں کو ٹکٹ جاری کیے تھے۔
لیبر پارٹی کی پاکستانی نژاد ناز شاہ بریڈ فورڈ سے کامیاب ہوئیں، خالد محمود نے برمنگھم، یاسمین قریشی ساؤتھ بولٹن، افضل خان مانچسٹر کے علاقےگورٹن، طاہر علی برمنگھم کے ہال گرین، محمد یاسین بریڈ فورڈ شائر، عمران حسین بریڈ فورڈ ایسٹ، زارا سلطانہ کوونٹری ساؤتھ اور شبانہ محمود برمنگھم لیڈی ووڈ سے ایک بار پھر کامیاب ہوئیں۔
کنزرویٹو پارٹی کی طرف سے پاکستانی نژاد نصرت غنی وئیلڈن، عمران احمد بیڈفورڈ شائر، ساجد جاوید برومس گرو، رحمان چشتی گلنگھم اور ثاقب بھٹی میریڈن سے کامیاب ہوئے۔

 

شیئر: