Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دسمبر کی دھوپ اور شاعری کا پت جھڑ

دسمبر میں سب کے اندر کا شاعر جاگ جاتا ہے۔ فائل فوٹو: پکسابے
دسمبر کی سرمگیں شاموں، ٹھٹھرتے دنوں اور دھند میں دھندلائی یخ بستہ صبح کا تصور کرتے ہی ایک اداسی کی سی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ ہر چیز سوئی سوئی اور کھوئی کھوئی سی محسوس ہوتی ہے۔ جہاں دسمبر میں درختوں کے پتے جھڑنے لگتے ہیں اسی طرح مختلف لوگوں کے منہ سے دسمبر میں شعر جھڑنے لگتے ہیں اور نئے نئے شاعر اپنی ٹوٹی پھوٹی شاعری کے ساتھ سوشل میڈیا پر جلوہ افروز ہوتے ہیں۔
جی۔۔۔۔ دسمبر آ نہیں رہا ۔۔۔ دسمبر آگیا ہے۔ سال کا آخری مہینہ دسمبر اپنے ساتھ پورے سال کی بہت سی یادیں لے کر آتا ہے اور پھر ہم سے بچھڑ جاتا ہے۔ جس طرح ہر موسم انسانی نفسیات اور مزاج پر اثر انداز ہوتا ہے اسی طرح اس مہینے میں بھی کچھ ایسا ضرور ہے جو لوگوں کو ایک عجیب کیفیت میں مبتلا کر دیتا ہے۔ ایسے ہی شعرا کا دسمبر پر یہ الزام بھی ہے کہ
گزر جاتا ہے سارا سال یوں تو
نہیں کٹتا مگر تنہا دسمبر
وہ کب بچھڑا، نہیں اب یاد لیکن
بس اتنا علم ہے کہ تھا دسمبر

خزاں رسیدہ شاعروں کو پڑھیں تو یوں لگتا ہے شاید یہ اس صدی کا پہلا اور آخری دسمبر ہے۔ فائل فوٹو: پکسابے

 سال کے اس آخری مہینے میں ان خزاں رسیدہ شاعروں کی شاعری پڑھیں تو یوں لگتا ہے کہ شاید یہ اس صدی کا پہلا اور آخری دسمبر ہے۔ بے تکے الفاظ  سے جڑے ہوئے مصرعوں میں ناکام عاشقوں کے تمام جذبات کوٹ کوٹ کر بھرے ہوتے ہیں۔
بالعموم تو یہ ’دسمبرانہ‘ شاعری باذوق لوگوں کی طبع نازک پر اکثر گراں ہی گزرتی ہے لیکن شاعری کے اس پت جھڑ میں بھی کچھ گلابی مصرعوں اور شعروں کے پھول بھی کھلتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ ’دسمبرانہ‘ شاعری میں ایسے شعر یوں تو آٹے میں نمک کے برابر ہیں لیکن انہیں پڑھ یا سن کر ان کا ذائقہ دیر تک محسوس ہوتا رہتا ہے۔
آخری دن میرے دسمبر کا
تیری یادوں کا جون ہوتا ہے
دسمبر کی میٹھی دھوپ میں کسی من چاہے اور خیمہ دل میں قیام پذیر شخص کا ساتھ میسر آ جائے تو پھر یہ شعر ضرور یاد آتا ہے
آؤ کچھ دیر دسمبر کی دھوپ میں بیٹھیں
یہ فرصتیں ہمیں، شاید نہ اگلے سال ملیں

کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیے ’’اردو نیوز کالمز‘‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: