کچھ زیادہ پرانی بات نہیں جب بڑا گھر، بڑی گاڑی، قیمتی گھڑی اور یورپ، امریکہ کے سیرسپاٹے سٹیٹس سمبل یا اردو میں کہیں تو امارت کی نشانیاں سمجھے جاتے تھے۔ انہیں دیکھ کر کچھ احباب، عزیز رشتہ دار رشک تو کچھ حسد کرتے پائے جاتے تھے۔ لیکن ’حالات حاضرہ‘ پر نظر ڈالیں تو یہ انکشاف ہو گا کہ آج کل امارت کی نشانی گھر اور گاڑی نہیں بلکہ چلغوزے اورٹماٹر ہیں۔
چلغوزوں کو تو عام آدمی کی دسترس سے روٹھے زمانہ ہوا لیکن تازہ ترین میدان ٹماٹرنے مارا ہے جو اگتا تو زمین پر ہے لیکن اس کی قیمت آسمانوں سے باتیں کر رہی ہے۔ کرکٹ کے میدانوں میں ہمارے قومی ’ہیروز‘ کی سنچری کو ترستی قوم کو ٹماٹر نے ایک ہی جھٹکے میں ٹرپل سنچری کر کے دکھا دی۔ کہیں 300 روپے کلو تو کہیں قیمت 320 روپے تک جا پہنچی یعنی روپے کو تیور دکھانے والے ڈالر کو بھی ٹماٹر نے مات دے دی۔
انہی حالات میں سبزی کی دکان کا رخ کیا تو ٹماٹر کے نام پر جو چیز رکھی دکھائی دی اسے ٹماٹر کے ’بیج‘ یا پھر ٹماٹر کی ’گولی‘ تو کہا جا سکتا تھا لیکن ٹماٹر کہنا خود ٹماٹر کے ساتھ زیادتی ہوتی۔ اس پر بھی سبزی والے کا غرور دیکھنے کے قابل تھا ٹماٹرکی قیمت بھی ایسے بتا رہا تھا جیسے کہہ رہا ہو’یہ منہ اور مسور کی دال‘۔ ویسے مسورکی دال بھی کچھ سستی نہیں۔
خیر سبزی والے کو کیا کہیں جب ہمارے ارباب اختیار ہی سادگی یا بے خبری کی معراج پر پائے جا رہے ہوں۔ مشیرخزانہ حفیظ شیخ نے نہایت پراعتماد انداز میں کیمروں کے سامنے فرمایا کہ ٹماٹر سترہ روپے کلو میں فروخت ہو رہے ہیں۔ بجائے یہ کہ قوم امپورٹڈ مشیرخزانہ کی نظر اتارتی اور ان کی معصومیت پر قربان جاتی کچھ حاسدوں نے شور مچانا اور سوشل میڈیا پرطوفان اٹھانا شروع کردیا۔ طرح طرح کی میمز سامنے آنے لگیں، یہ غلط بات ہے۔ دن رات ہماری معاشی حالت سدھارنے کی فکرمیں اگر مشیرخزانہ نے ٹماٹر کی قیمت 17 روپے بتا دی تو کیا ہوا؟ آخر’بڑے بڑے شہروں میں ایسی چھوٹی چھوٹی باتیں تو ہوتی رہتی ہیں۔‘
دن رات سٹریٹ کرائمز کے ہاتھوں لٹنے والے کراچی کے شہریوں نے کسی دل جلے کی اڑائی یہ افواہ نما خبر بھی سنی کہ بدین میں ٹماٹر کے کھیت میں ڈاکہ پڑا اور ڈاکو ٹماٹر لوٹ کر لے گئے جس کے بعد پہرے داری شروع کر دی گئی۔ مطلب اگر آپ صاحب حیثیت ہیں اور ٹماٹر خرید سکتے ہیں تو موبائل فون کے علاوہ ٹماٹر بھی گھر لے جاتے وقت احتیاط کریں۔
دھرنے کے شور اور نواز شریف کے علاج کی غرض سے باہر جانے نہ جانے کی آنکھ مچولی کے دوران اتنی توجہ، اتنی کوریج لے لینا کہ سب کی زبان پر ٹماٹرکے ہی چرچے ہوں بڑا کارنامہ ہے۔ اصل میں تو یہ کارنامہ ان کا ہے جو ٹماٹر کے پردے میں صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں، بس قیمتیں بڑھائے جاتے ہیں۔
مزید پڑھیں
-
’مجھے ڈھونڈتے رہنا، دیکھنا لوٹ آؤں گا‘Node ID: 443226
-
ریاستی ظلم کی داستان دیوار برلنNode ID: 443326
-
’پٹواری کو ’ولیج آفیسر‘ کہنے سے حقیقت بدل جائے تو کیا کہنے‘Node ID: 443651
اس ساری صورتحال میں افسوس کی بات یہ ہے کہ کسی کوعام آدمی کا احساس نہیں۔ سبزی، دال ایسی چیزیں تھیں جنہیں غریب دوست کہا جاتا تھا لیکن آج دیہاڑی دار مزدور اورغریب طبقے کے لیے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ سبزی یا دال سے بھرنا بھی مشکل ہو گیا ہے۔ جس کا احساس اقتدار میں بیٹھے معاشی پالیسی سازوں کو ہے اور نا ہی ’غریب عوام‘ کا نام لے لے کر دہائیاں دینے والے اپوزیشن کے سیاستدانوں کو۔ اگر کسی کو بھی احساس ہوتا تو کوئی ایک دھرنا توعوام کے لیے ان اشیا کی قیمتیں کم کرانے کے لیے بھی دیا جاتا۔
شاید وہ وقت آگیا ہے کہ بجلی، پانی اورگیس کی کمی کا سامنا کرتے اور مہنگائی کے ستائے عوام کو ریلیف دینے کے لیے مہنگائی کے جن کو قابو میں کرنے کے لیے فوری تدبیرکی جائے۔ یہ نہ ہوا تو کہیں ایسا نہ ہو کہ فرانس کے انقلاب کی بنیاد کہے جانے والے مشہور زمانہ جملے ’روٹی نہیں ملی تو کیک کیوں نہیں کھاتے‘ کی جگہ آنے والے وقتوں میں ٹماٹر لے لیں۔
کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیے ’’اردو نیوز کالمز‘‘ گروپ جوائن کریں