Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

 پی آئی سی کیس: ’بے قصور وکلا کے خلاف کارروائی نہ کی جائے‘

عدالتی استفسار پر ہوم سیکریٹری مومن آغا نے بتایا کہ تین مریض اس واقعے کے دوران ہلاک ہوئے (فوٹو:اے ایف پی)
لاہور ہائی کورٹ نے وکیلوں کے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی پر حملے کے مقدمے کو نمٹاتے ہوئے آٹھ رکنی کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔
اس آٹھ رکنی کمیٹی میں چار وکلا اور چار ڈاکٹروں کے نمائند گان ہوں گے۔
بدھ کو سماعت کے دوران جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے آئی جی پنجاب کو بے قصور وکلا کے خلاف کارروائی اور ان کی فیملیز کو ہراساں کرنے سے روک دیا۔ عدالت کا کہنا تھا کہ جو واقعے میں ملوث ہیں ان کو خمیازہ بھگتنا ہو گا۔
لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی نے وکلا کی رہائی کے لیے درخواستوں پرسماعت شروع کی تو ہوم سیکریٹری اور آئی جی پولس پنجاب پیش ہوئے۔
 
پاکستان بار کونسل کے رکن احسن بھون نے عدالت کو بتایا کہ اس واقعے کی مذمت کی گئی ہے لیکن پولیس کو تشدد کا نشانہ بنانے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ ریس کورس پارک میں بیٹھے وکلا کو بھی پکڑا گیا اور انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے ریماکس دیے کہ ’جس نے گناہ کیا ہے اس کے خلاف کارروائی کریں اور کسی بے گناہ کے ساتھ زیادتی نہ کی جائے۔
سماعت کے دوران بنچ کے سربراہ نے آئی جی پولیس سے استفسار کیا کہ وکلا کے چہرے ڈھانپے کی ضرورت تھی؟ آئی جی پولیس نے وضاحت کی کہ ایسا صرف شناخت پریڈ کے لیے کیا گیا۔
عدالت نے کہا کہ سی سی ٹی وی فوٹیج کے بعد شناخت پریڈ کی کیا ضرورت ہے؟ آئی جی پولیس پنجاب کے مطابق کئی ایسے مقامات ہیں جہاں کیمرے نہیں لگے ہوئے۔
بنچ کے سربراہی جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے ریماکس دیے کہ ’ویانا کنوکنشن کے مطابق جنگ میں بھی ہسپتال پر حملے سے روکا گیا ہے۔‘ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے ریماکس دیے کہ ہپستال کے سامنے کوئی ہارن نہیں بجا سکتا، احتجاج کرنے کی اجازت کیسے ہو سکتی ہے۔
 

جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے آئی جی پنجاب کو بے قصور وکلا کے خلاف کارروائی اور ان کی فیملیز کو ہراساں کرنے سے روک دیا (فوٹو:اے ایف پی)

عدالتی استفسار پر ہوم سیکریٹری مومن آغا نے بتایا کہ تین مریض اس واقعے کے دوران ہلاک ہوئے۔
عدالتی استفسار پر ہوم سیکریٹری نے بتایا کہ ’ماسک اتارنے والی بات کی تصدیق نہیں کی جا سکتی البتہ جب حملہ ہوا تو ایک عورت کی جان بچانے کی کوشش کی جا رہی تھی لیکن اس حملے کی صورت ڈاکٹر بھاگ گئے۔
جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے افسوس کا اظہار کیا کہ ایک طرف وکلا نے حملہ کیا دوسری طرف پولیس نے آنسوں گیس پھینکی، انتظامیہ کی ناکامی ہی تو ہے۔
11 دسمبر کو پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں اس وقت تشویشناک صورت حال پیدا ہو گئی تھی جب لاہور بار ایسوسی ایشن کے سینکڑوں وکلا نے ہسپتال پر اچانک ’دھاوا‘ بول دیا۔
پنجاب کے وزیراطلاعات فیاض الحسن چوہان  نے پی آئی سی واقعے میں تین مریضوں کی ہلاکتوں کی تصدیق کی تھی۔
واقعے کے بعد لاہور کے تھانہ شادمان میں وکلا کے خلاف دہشت گردی کے دو مقدمات درج کر لیے گئے تھے، ایف آئی آر میں 21 وکلا اور 250 نامعلوم افراد کو نامزد کیا گیا تھا۔ دونوں مقدموں میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ سات بھی شامل کی گئیں۔
پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی پر حملے کے الزام میں گرفتار 56 وکلا کو انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں پیش کیا گیا تھا، جنہیں عدالت نے 14 دن کے جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا۔

شیئر: