Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’30 سال میں ایسے مناظر نہیں دیکھے‘

لاہور میں پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی پر وکلا نے حملہ کیا تھا۔ فوٹو اردو نیوز
لاہورمیں واقع پنجاب کے دل کے سب سے بڑے ہسپتال پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں وکلا کے پرتشدد احتجاج کی خبرسنی تو گاڑی کو فین روڈ سے ہی موڑ لیا لیکن ٹریفک جام میں پھنسنے کے بعد جب پی آئی سی پہنچا تو لگا جیسے کوئی جنگ ہو گزری ہے۔
فضا میں آنسو گیس کے اثرات موجود تھے۔ ایمرجنسی کا دروازہ چکنا چور تھا، ریسپشن سے ایمرجنسی وارڈ کی طرف مڑا تو منظر بالکل ایسا تھا جیسے کسی پناہ گزین کیمپ میں آ گیا ہوں۔ الٹے پلٹے، آڑھے ترچھے بیڈز پر بیٹھے دل کے مریض دل تھامے بیٹھے تھے، اور خالی نظروں سے ان ڈرپس کو دیکھ رہے تھے جو کب کی ختم ہو چکی تھیں لیکن انہیں برنولے سے نکالنے والا کوئی نہیں تھا۔
ہر ایک بیڈ پر الگ ہی داستان تھی۔ بیڈ نمبر تیس پر بیٹھے ایک ادھیڑ عمر مریض عباس نے آنسو گیس کی وجہ سے آنکھوں سے بہنے والا پانی صاف کرتے ہوئے بتایا،
’ادھر سے مار پیٹ کر کے توڑ پھوڑ کر کے جب وکیل نکلے تو ہمیں لگا مشکل ٹل گئی ہے، لیکن ایسا نہیں تھا۔ تین بار وہ آئے گروپوں کی شکل میں اور ہر بار وہ جس کو دیکھتے مارنا شروع ہو جاتے۔‘
’یہاں ہمارے سانس بند ہونے شروع ہو گئے، مریض ایک دوسرے کو سہارا دے کر یہاں سے نکلنے لگے، ایک دوسرے کو پانی دیا، کسی کو ڈرپ لگی تھی، کسی سے اٹھا نہیں جا رہا تھا، اور کوئی صدمے سے بے ہوش ہو چکا تھا۔ پتا نہیں اس زہریلی گیس سے ہم کیسے بچ نکلے مجھے تو ابھی تک یقین نہیں آ رہا۔‘
 

وکلا کے حملے میں عمارت کو جزوی نقصان پہنچا اور عملے کو بھی زدوکوب کیا گیا۔ فوٹو اردو نیوز 

ہسپتال کے ایک سینٹری ورکر نے بتایا ’ایک بوڑھی مریضہ سٹریچر پر لائی گئیں، وہ دل کے دورے کی کیفیت میں تھیں۔ جس کا بعد میں پتا چلا کہ نام گلشن بی بی اور مغلپورہ کی رہائشی تھیں۔ دو ڈاکٹر ان کو طبی امداد دے رہے تھے کہ وکیلوں نے ہلہ بول دیا اور ڈاکٹروں کو مارنا شروع کر دیا، وہ اس مریضہ کو چھوڑ کر بھاگے تو تھوڑی دیر میں ان کا انتقال ہو گیا اور وہ ان کے جوان بیٹے کو بھی مار رہے تھے، میں واش روم کے دروازے پر تھا میں نے جلدی اندر گھس کے کنڈی لگا لی۔‘
پی آئی سی واقعے پر ہر آنکھ اشک بار تھی، میں ایمرجنسی سے آؤٹ ڈور کی طرف بڑھا تو ہر دروازہ ٹوٹا پڑا تھا۔ ایک کمرے میں دل کی مشین سے ٹوں ٹوں کی آواز لگاتار آ رہی تھی، کمرا الٹا پلٹا تھا اور بیڈ خالی، لیکن شیٹ پر خون کے دھبے پوری داستان سنا رہے تھے۔
ایک خاتون لنگڑا کے چل رہی تھیں، مجھے اپنے ساتھ جاتے دیکھ کر اچانک بولیں ’میں نے تیس سال یہاں گزارے ہیں آج تک ایسے مناظر نہیں دیکھے۔‘

آؤٹ ڈور کا دروازمکمل تباہ تھا اور اس کے نکڑ میں پڑے کرسمس ٹری کی بتیاں جل رہیں تھیں۔ فوٹو اردو نیوز

میں رکا اور ان کا تعارف پوچھا، انہوں نے بتایا ’میرا نام ڈاکٹر شگفتہ ہے اور میں دل کی ڈاکٹر ہوں، ٹی وی پر مناظر دیکھ کے مجھ سے رہا نہیں گیا اور میں گھر سے نکل آئی اور اب جو دیکھ رہی ہوں، ٹی وی پر تو ایسا کچھ بھی نہیں دکھا رہے، کوئی انسان یہ کیسے کر سکتا ہے۔‘ 
آئی سی یو یعنی انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں تباہی دوسرے مقامات سے مختلف نہ تھی، اور یہ ذہن میں رکھیں کہ آئی سی یو میں صرف وہ مریض رکھے جاتے ہیں جن کے آپریشن یا تو ہونے والے ہوتے ہیں یا ہو چکے ہوتے ہیں اور وہ زندگی اور موت کی کشمکش میں ہوتے ہیں۔ دو آئی سی یو خالی تھے اور ان کے بیڈ تتر بتر تھے۔
آؤٹ ڈور کے حصے میں بھی پہنچنے پر کم و بیش یہی مناظر تھے۔ آؤٹ ڈور کا دروازہ مکمل تباہ ہو چکا تھا اور اس کے کونے میں پڑے کرسمس ٹری کی بتیاں جل رہیں تھیں، اس کے اوپر اور نیچے شیشوں کی کرچیاں بکھری پڑی تھیں۔
آؤٹ ڈور سے باہر نکل کے دیکھا تو لمبی راہداری میں ایک خالی سٹریچر پڑا تھا جس سے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں تھا کہ اس پر کسی مریض کو لایا جا رہا تھا لیکن کیا وہ اندر پہنچ سکا تھا؟
 

حملے کے وقت ہسپتال میں ہزاروں مریض زیر علاج تھے۔ فوٹو اردو نیوز

اس ساری صورتحال کے بعد وکیل رہنما اور ممبر پاکستان بار کونسل اعظم نظیر تارڑ کو فون کیا اور میرا پہلا جملہ تھا کہ آپ نے یہ کیا کیا؟ اور ساتھ ہی بولا آپ کا بولا ہوا ایک ایک لفظ میں لکھوں گا انہوں نے ایک گہری سانس لی اور گویا ہوئے ’یہ بہت بڑا ظلم ہوا ہے جس کی کوئی توجیح نہیں دی جاسکتی لیکن میں اتنا ضرور کہوں گا کہ اس میں مجرم صرف وکیلوں کو تصور نہ کیا جائے ہر اس شخص کو کٹہرے میں لایا جائے جو ذمہ دار ہے اور میرے نزدیک پہلی ذمہ داری وکیلوں پر دوسری ینگ ڈاکٹرز اور تیسری حکومت پر عائد ہوتی ہے۔‘
ان کے مطابق اس ہسپتال میں نومبر میں ہونے والا واقعہ جس میں تین وکیلوں کو مارا گیا اسی وقت حل کر لیا جاتا تو یہ نوبت نہ آتی۔ ’پولیس کو جب پتا تھا کہ تین سو کے لگ بھگ وکیل احتجاج کرنے پی آئی سی آرہے ہیں تو کیوں نہ سکیورٹی کے انتظامات کیے گئے۔ لاہور بار میں 20 ہزار وکیل رجسٹرڈ ہے صرف تین سو نے یہ حرکت کی کیا انتظامیہ اتنی نااہل ہے کہ تین سو بندوں سے ہسپتال تباہ کروا لیا؟ اور آخری بات یہ کہ وکلا کے الیکشن اگلے مہینے ہیں اس لیے تمام دھڑے زیادہ سے زیادہ حمایت حاصل کرنے کے لئے وہ کام کرتے ہیں جو اخلاقا نہیں کرنے چاہیے لیکن یہ ہوتا ہے انتظامیہ کو اس نفسیات کا بھی پتہ ہے پھر بھی آنکھ بند کرنا سمجھ سے باہر ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ جن وکیلوں نے بھی یہ حرکت کی ہے کمیونٹی میں ان کی پذیرائی نہیں ہے۔

شیئر: