Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’آگ سے کھیلنے کے شوقین جل سکتے ہیں‘

کراچی میں پرویز مشرف کے حق میں مظاہرہ بھی کیا گیا (فوٹو اے ایف پی)
سابق فوجی صدر پرویز مشرف کو خصوصی عدالت کی جانب سے سزائے موت سنائے جانے کے بعد سے پاکستانی سوشل میڈیا پر مختلف قسم کی آرا پائی جا رہی ہیں، اس فیصلے کے حق اور مخالفت میں رائے کے اظہار کا سلسلہ جاری ہے۔ 
جمعرات کو اس بحث میں مزید شدت اس وقت سامنے آئی جب خصوصی عدالت نے سنگین غداری کیس کا 169 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کیا۔ 
اس وقت پاکستانی سوشل میڈیا پر جو نکتہ سب سے زیادہ زیربحث ہے وہ تفصیلی فیصلے کے پیرا 66 سے متعلق ہے۔  جسٹس وقار احمد سیٹھ کی طرف سے لکھے گئے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ’قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ہدایت کی گئی ہے کہ پوری کوشش کریں کہ مفرور مجرم کو پکڑیں اور قانون کے مطابق سزا یقینی بنائیں۔ اگر انہیں مردہ پایا جائے تو بھی ان کی میت کو گھسیٹ کر ڈی چوک اسلام آباد لایا جائے اور اسے تین دن کے لیے لٹکایا جائے۔‘ 
ٹوئٹر پر گذشتہ دو دنوں سے پرویز مشرف سے متعلقہ ٹاپ ٹرینڈز ہیں اور اس وقت بھی ’مشرف ورڈکٹ‘، ’آئی ایم مشرف‘، ’غدار مشرف‘، ’پیرا 66‘َ ’جج‘ اور اسی قسم کے دیگر موضوعات سرفہرست ہیں۔ 
پاکستانی سوشل میڈیا پر صارفین کی جانب سے نہ صرف اس امر کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ سزائے موت کے خاتمے کے بارے میں مطالبات کیے جا رہے ہیں۔ 
وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چودھری نے اپنے ردعمل میں لکھا: ’افتخار چوہدری کی بحالی کے نتیجے میں ایسے لوگ بھی جج بن گئے جن کی اہلیت اور علم پر سنجیدہ سوالات ہیں، آگ سے کھیلنے کے شوقین حضرات کو علم ہی نہیں کہ جل بھی سکتے ہیں، نہ لفظ چننے کی اہلیت نہ بیان کا سلیقہ۔ یہ ریت نئی نہیں لیکن تاریخ کا سبق ہے کہ کوئی تاریخ سے سبق نہیں سیکھتا۔‘

عالمی قوانین کی ماہر قانون دان ریما عمر نے لکھا کہ ’یہاں اپیل کرنے کے کئی گراؤنڈ ہیں جس میں جسٹس سیٹھ کی سزائے موت پر عمل درآمد سے متعلق قابل مذمت اور غیر قانونی طریقہ کار کی ہدایت ہے جبکہ جسٹس کریم کی رائے مجموعی طور پر ٹھوس ہے لیکن جسٹس سیٹھ کے فیصلے میں بعض نکات قانونی طور پر نقائص ہیں اور اس پر لازمی نظرثانی ہونی چاہیے تاکہ فیصلے کی قانونی حیثیت ہو۔‘
تجزیہ کار کامران خان نے ایک ویڈیو میسج پوسٹ کیا جس میں انہوں نے اس فیصلے سے اختلاف کیا: ’متنازع ترین فیصلہ! نہ حکومت کو قبول! نہ فوج کو قبول! نہ پاکستانی عوام کو قبول!‘  

عوامی نیشنل پارٹی کی رہنما بشریٰ گوہر نے لکھا کہ ’یہ وحشی پن ہے۔ میں ذاتی طور پر سزائے موت کی حامی نہیں اور بلاشبہ سرعام پھانسی سے اتفاق نہیں کرتی۔ پاکستانی معاشرہ اتنا زیادہ عسکریت پسند اور ظالم ہو چکا ہے کہ سرعام پھانسی کو انصاف سمجھا جاتا ہے۔۔۔ سیاسی رہنما اکثر اپنی تقاریر میں سرعام پھانسی کا مطالبہ کرتے ہیں۔‘ 
صحافی عباس ناصر نے لکھا: ’مشرف کے فیصلے کو اداراتی ایشو بنا کر ذاتی مقاصد حاصل کرنے کی بڑی چالاک کوشش کی گئی ہے۔ افسوس۔‘

رضا رومی نے لکھا کہ ’آئین شکنی کرنے والے تمام افراد کا احتساب ہونا چاہیے۔ اگرچہ کچھ لوگ پھانسی پر لٹکانے کا مطالبہ کرتے ہیں جن میں (عمران خان اور ان کے وزرا شامل ہیں لیکن ہمیں وحشیانہ سزاؤں سے انکار کرنے کے موقف پر قائم رہنا چاہیے۔‘ 
تجزیہ کار مرتضیٰ سولنگی نے لکھا کہ ’میں امید کرتا ہوں کہ خصوصی عدالت کے پرویز مشرف کے سزائے موت کے فیصلے کے پیراگراف 66 کے خلاف غصہ سزائے موت کے خلاف قومی اتفاق پیدا کرنے کے نتیجے کی صورت میں سامنے آئے گا، کیونکہ یہ سزا کے تصور کے خلاف ہے اور یہ تذلیل ہے  اور انسانی وقارکے خلاف ہے۔‘ 
 

شیئر: