Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’۔۔۔ہواؤں کا رخ بدل رہا ہے تو ترمیمی آرڈیننس آ گیا‘

وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ روز کہا تھا کہ نیب کاروباری افراد سے پوچھ گچھ نہیں کرے گی۔ فوٹو: سوشل میڈیا
پاکستان میں وفاقی حکومت نے قومی احتساب بیورو (نیب) کے قوانین میں صدارتی آرڈیننس کے زریعے ترمیم کر دی ہے۔ صدارتی آدڑیننس کے ذریعے کی گئی ترمیم کو ایک طرف اپوزیشن کی سیاسی جماعتیں سخت تنقید کا نشانہ بنا رہی ہیں تو دوسری طرف سپریم کورٹ میں اس کے خلاف درخواست بھی دائر کر دی گئی ہے۔
نیب ترمیمی آرڈیننس کے خلاف سنیچر کے روز سپریم کورٹ میں دائر کی گئی درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ نیب ترمیمی آرڈیننس آئین کے آرٹیکل 25 کی خلاف ورزی ہے اور ترمیمی آرڈیننس وزرا اور سرکاری افسران کی کرپشن کو تحفظ دینے کی کوشش ہے۔
درخواست میں وفاق، چئیرمین نیب اور وزات قانون کو فریق بنایا گیا ہے اور موقف اختیار کیا گیا ہے کہ  نیب ترمیمی آرڈیننس بدننتی پر مبنی ہے اسے  فوری طور پر معطل کیا جائے۔
یہ درخواست سپریم کورٹ کی کراچی رجسٹری میں ایک سماجی کارکن کی جانب سے دائر کی گئی ہے۔

 

نیب ترمیمی آدڈیننس میں ہے کیا؟

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے قومی احتساب بیورو (نیب) کا ترمیمی آرڈیننس 2019 منظور کر لیا ہے۔ جس کے بعد وزارت قانون و انصاف کی جانب سے باضابطہ نوٹیفیکیشن جاری کر دیا گیا ہے۔
نئے ترمیمی آرڈیننس کے بعد وفاقی اور صوبائی ٹیکس اور لیویز سے متعلقہ ایشوز نیب کے بجائے اب متعلقہ فورمز تحقیقات کریں گی۔ کسی بھی کمپنی یا انفرادی شخص کے خلاف نیب کارروائی نہیں کرے گا اگر اس کا تعلق بلواسطہ یا بلاواسطہ طور پر کسی عوامی عہدے رکھنے والے کے ساتھ نہیں ہوگا۔
کسی بھی حکومتی منصوبے میں بے ضابطگیوں کی بنیاد پر کسی عوامی عہدہ رکھنے والے شخص کے خلاف کارروائی عمل میں نہیں لائے جائے گی جب تک عوامی عہدہ رکھنے والے شخص کے خلاف منصوبے میں ہونے والی بے ضابطگیوں کا براہ راست مالی فوائد حاصل کرنے کے شواہد موجود نہ ہوں یا اس کے اثاثوں میں آمدن سے زائد کا اضافہ نہ دیکھنے کو ملا ہو۔
کسی بھی عوامی عہدہ رکھنے والے کے خلاف اختیارات کا ناجائز استعمال کرنے کے حوالے سے کارروائی مالی فوائد اٹھانے کے شواہد ہونے کی صورت میں ہی عمل میں لائی جا سکے گی۔
نیب ترمیمی آرڈیننس کا اطلاق تمام موجودہ انکوائریوں اور مقدمات  پر ہوگا۔ اس آرڈیننس کے بعد نیب عدالتوں سے تمام ایسے کیسز جو کہ اب نیب کے دائرہ اختیار میں نہیں آتے متعلقہ عدالتوں کو منتقل کر دیے جائیں گے۔

اکرم درانی نے کہا کہ ’جب چئیرمین نیب نے کہا  کہا کہ ہواوں کا رخ بدل رہا ہے تو  نیب قوانین میں ترمیمی آرڈیننس سامنے آیا ہے۔‘ فوٹو: سوشل میڈیا

وزیراعظم عمران خان نے جمعے کے روز کراچی میں کاروباری افراد کی ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے نیب آرڈیننس کا حوالے دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’کاروباری افراد کو خوشخبری دینا چاہتا ہوں کہ اب نیب ان سے پوچھ گچھ نہیں کرے گی۔‘
انہوں نے کہا تھا کہ کاروباری افراد کی جانچ پڑتال کے لیے دیگر فورمز موجود ہیں اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ نیب صرف عوامی عہدہ رکھنے والے افراد پر توجہ مرکوز رکھے۔

اپوزیشن جماعتوں کے تحفظات

نیب ترمیمی آرڈیننس کے حوالے سے سنیچر کے روز حزب اختلاف کی جماعتوں نے  اسلام آباد میں رہبر کمیٹی کا مشاورتی اجلاس بلایا اور نیب آرڈیننس و دیگر سیاسی امور پر مشاورت کی۔
اپوزیشن کی رہبر کمیٹی کے سربراہ اکرم درانی نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے نیب آرڈیننس کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ’جب چیئرمین نیب نے کہا کہ ہواوں کا رخ بدل رہا ہے تو نیب قوانین میں ترمیمی آرڈیننس سامنے آیا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ سینیٹ کی کمیٹی نے نیب آرڈیننس بل متفقہ طور پر منظور کیا ہے، لیکن حکومت سینیٹ کا اجلاس پچھلے تین ماہ سے نہیں طلب کر رہی۔ ’نیب قوانین میں صدارتی آرڈیننس کے زریعے ترمیم پارلیمنٹ کی توہین ہے۔‘  

درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ نیب ترمیمی آرڈیننس آئین کے آرٹیکل 25 کی خلاف ورزی ہے. سوشل میڈیا

اپوزیشن کی رہبر کمیٹی کے سربراہ نے الزام عائد کیا کہ نیب ایک متنازع ادارہ ہے اور حکومت اب دیگر اداروں کو بھی متنازع بنا رہی ہے۔ انہوں نے واجد ضیا کی بطور ڈی جی ایف  آئی اے تقرری پر کہا کہ ’واجد ضیا کی تقرری کا مقصد سیاسی انتقام ہے، اب حکومت ایف آئی اے کو بھی اپوزیشن کے خلاف استعمال کر رہی ہے۔ ایف آئی اے نے مسلم لیگ ن کے دفتر پر چھاپا مار ا ہے۔‘
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: