Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نابینا خواتین کی کامیابیاں، سماج میں معجزہ

ایسے سکول بھی ہیں جہان بریل میں کتاب موجود نہیں مگر تعلیم کے نام پر سکول چل ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
زندگی کے تئیس سال نابینا افراد کے ساتھ گذارنے کے بعد آج میں جس موضوع پر لکھ رہا ہوں مجھے اچھی طرح ادراک ہے کہ اس موضوع پر پہلے بات نہیں ہوئی ہے۔ پاکستان میں نابینا خواتین کے حقیقی مسائل کے بارے میں شاید ہی پہلے کبھی لکھا گیا ہو۔
ہم ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں غربت اور ناداری کا براہ راست تعلق ہے۔ اس معاشرے میں اگر آپ نابینا ہیں، غریب ہیں اور خاتون ہیں تو آپ کے مسائل کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔ نابینا بچیاں معاشرے کے ہر ستم کا نشانہ بنتی ہیں۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں مرد کو ہمیشہ سے فوقیت دی جاتی ہے وہاں ایک نابینا بچی کس حال میں زندگی کاٹتی ہے اس کا  ادراک چنداں مشکل  نہیں۔ ایک ایسے سماج میں جہاں  ہر لحاظ سے صحت مند مردوں کے لیے تعلیم کے مواقع موجود نہیں ہیں وہاں ایک نابینا بچی کیسے تعلیم حاصل کرتی ہے؟ اس  کا اندازہ لگانا ہرگز مشکل نہیں۔
مجھے پورے پاکستان میں تقریباً ہرسپیشل سکول میں جانے کا موقع ملا ہے۔ ہزاروں ایسے خاندانوں سے واقف ہوں جہاں ایک سے زیادہ نابینا بچے ہیں۔ مجھے پاکستان کے ایک ایسے گاؤں میں بھی جانے کا موقع ملا جہاں ایک سو 23 لوگ نابینا ہیں اور ان کے نابینا پن کی اصل وجہ کزن میرج ہے۔ لیکن بدقسمتی سے اس علاقے میں آج بھی برادری میں شادی غیرت کا سبب مانی جاتی ہے۔ میں نے ایسے گھر بھی دیکھے ہیں جہاں ان نابینا بچیوں کو کئی برسوں سے باندھ کر رکھا گیا ہے۔
میں ایسے لوگوں کو بھی جانتا ہوں جو اس عہد جدید میں بھی نابینا پن کو صرف معذوری نہیں بلکہ قدرت کا قہر اور غضب سمجھتے ہیں۔ میں ایسے لوگوں کو بھی جانتا ہوں جو اس معذوری کا علاج پیروں فقیروں سے کرواتے ہیں، اور وہ پیر فقیر ان نابینا بچیوں کی معذوری کا ناجائز فائدہ بھی اٹھاتے ہیں۔ میں ایسے گھرانوں کو بھی جانتا  ہوں جہاں کی نابینا بچیوں نے آج تک گھر سے قدم باہر نہیں نکالا۔ میں ایسی بچیوں کو بھی جانتا ہوں جن کی معذوری کے سبب انکی بینا بہنوں کی شادی نہیں ہوتی۔ میں نے ایسے گھر بھی دیکھے ہیں جہاں کسی بینا بہن بھائی کا رشتہ لوگ دیکھنے آتے ہیں تو نابینا بچیوں کو کمروں میں قید کردیا جاتا ہے۔

پاکستان میں نابینا افراد کے حقوق کی آواز بلند کرنے کا سہرا بھی کچھ بہادر نابینا خواتین کو جاتا ہے۔ فوٹو: سوشل میڈیا

میں ایسے واقعات سے بھی واقف ہوں جن میں کسی ابولہوس نے ان نابینا بچیوں کو سہارا دینے یا راستہ دکھانے کے بہانے اپنی ہوس کا نشانہ بنایا۔ میں نے وہ لوگ بھی دیکھے ہیں جو اس بات پرمرنے مارنے پر تل جاتے ہیں کہ  اگر کوئی  انکی  نابینا بچی کا ہاتھ پکڑ کر انہیں رستہ پار کروانے کی کوشش کرے۔ میں نے ان بچیوں کے سکول دیکھے ہیں جہاں تعلیم کی معراج ان بچیوں کو سلائی کڑھائی سکھانا یا موم بتیاں بنانا سکھانا ہوتا ہے۔
میں نے ان بچیوں کے ایسے سکول بھی دیکھے ہیں جہان بریل میں کتاب موجود نہیں ہے مگر پھر بھی تعلیم کے نام پر ان سکولوں کا روزگار چل رہا ہے۔ میں نے ایسے نابینا مرد بھی دیکھے ہیں جو کسی نابینا لڑکی سے شادی کے نام پر کانوں کو ہاتھ لگاتے ہیں۔ یہ عجیب واقعہ ہے اس سماج میں کہ نابینا لڑکوں کی شادیاں بینا لڑکیوں سے ہو جاتی ہیں مگر نابینا لڑکیوں کو نابینا لڑکے بھی قبول نہیں کرتے۔ اس سب کے باوجود اس معاشرے میں اگر نابینا خواتین کسی بھی شعبے میں اپنا نام بنانے میں کامیاب ہوتی ہیں تو یہ غیر معمولی بات ہے۔
ان تلخ حقیقتوں کو بیان کرنے کے بعد یہ بتانا ضروری ہے کہ پاکستان میں نابینا افراد کے حقوق کی آواز بلند کرنے کا سہرا بھی کچھ بہادر نابینا خواتین کو جاتا ہے۔ اس میں اولین نام ڈاکٹر فاطمہ شاہ کا ہے جن کی کتاب ’دھوپ چھاؤں‘ اگر آپ پڑھ لیں تو آپ کی زندگی بدل جائے۔ دوسرا بڑا نام ڈاکٹر سلمی مقبول کا ہے جن کی خدمات کا اعتراف اقوام متحدہ نے بھی کیا۔ تیسرا نام میری مرحومہ اہلیہ صائمہ عمار کا ہے جنہوں نے دو سال کی عمر میں نابینا ہونے کے باوجود ہزاروں نابینا بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا۔ یہ تینوں جری خواتین اب اس دنیا میں نہیں لیکن ان کا سفر جاری ہے۔ انکی جدوجہد جاری ہے۔ ان  کی جلائی ہوئی شمع اب بھی روشن ہے۔

ڈاکٹر سلمیٰ مقبول کی خدمات کا اعتراف اقوام متحدہ نے بھی کیا۔ فوٹو: سوشل میڈیا

گذشتہ دنوں میرا تعارف پاکستان کی چار بہادر نابینا خواتین سے ہوا۔ ان کے کارنامے سنیں اور سوچیں کہ کن کن مراحل سے گذر کر یہ کامرانی کے اس مقام تک پہنچی ہیں۔
ارم شبیر کا تعلق گجرانولہ سے ہے اوریہ بچپن سے نابینا ہیں اب تک وہ ایم اے کی تین ڈگریاں حاصل کر چکی ہیں۔ اس کے علاوہ بے شمار کورسز بھی  کر رکھے ہیں ۔ ارم اس وقت اٹھاریوں گریڈ پر ایک گورنمنٹ انسٹی ٹیوٹ میں پرنسپل ہیں۔
نارووال کی شمسہ کنول کی نظر بچپن سے نہیں تھی۔ حکومت جاپان کی جانب سے انہیں  ڈسکن سکالر شپ ملا۔ شمسہ آج کے دن تک پاکستان کی پہلی خاتون ہیں جنہیں یہ اعزاز ملا۔ وہ اس وقت سیالکوٹ میں تمام معذور افراد کی فلاح بہبود کے  لیے اپنا ایک ادارہ چلا رہی ہیں۔
لاہور کی صائمہ ارشد بھی پیدائشی نابینا ہیں۔ انہوں نے سوشیالوجی میں ایم فل کیا۔ آج کل اپنے شوہر کے ساتھ مل کر نابینا طلباء کو کمپیوٹر کی تعلیم دیتی ہیں اور سپیشل ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ میں اعلی عہدے پر بھی فائز ہیں۔
اسلام آباد کی معروف شاعرہ روبینہ شاد بھی بچپن سے  نابینا ہیں۔ انہوں نے ایم اے اردو ادب کیا اور راولپنڈی ویمن یونیورسٹی  میں لیکچرر ہیں۔ معروف  شاعرہ ہیں اور نابینا لوگوں کے لیے رضا کارانہ خدمات بھی انجام دیتی ہیں۔
 یہ خواتین اس معاشرے میں عزم و ہمت کی علم بردار ہیں۔ اس معاشرے میں ان  نابینا خواتین کی کامیابیوں کو کارنامہ  کہہ دینا کافی نہیں، یہ اس سماج میں ایک معجزہ ہیں۔

شیئر: