Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وہ مقدمہ جس نے امریکی اشرافیہ کو بہت کچھ سکھا دیا: عامر خاکوانی کا کالم

اخبارات میں لیونا مینڈی کو ہوٹل کوئن کے نام سے پکارا جاتا۔ (فائل فوٹو: اے پی)
ہمارے ہاں آج کل سوشل میڈیا پر آئے روز کوئی نہ کوئی ایسی ریل یا ویڈیو کلپ وائرل ہو جاتا ہے جسی دیکھنے والے کا خون کھول اٹھے۔ ان میں کسی مقامی سطح پر طاقتور شخص یا کسی دولت مند گھرانے کی بگڑی ہوئی اولاد یا خواتین راہ گیروں یا مرد، کمزور حیثیت والی خواتین کو بے رحمی سے تشدد کا نشانہ بناتے نظر آتے ہیں۔ کبھی پتہ چلتا ہے کہ کسی وحشی جاگیردار یا وڈیرے نے غریب کسان کی تذلیل کی، کھیت یا باغ سے چھوٹی موٹی کھانے کی چیز چرانے والے لڑکے کو درخت سے باندھ کر کوڑے برسائے، الٹا لٹکا دیا وغیرہ وغیرہ۔
جب ایسا ایشو وائرل ہو جائے تو اس پر شدید عوامی ردعمل سامنے آتا ہے۔ پولیس اور انتظامیہ کو بھی حرکت میں آنا پڑتا ہے۔ ملزم گرفتار ہو جاتے ہیں، دوچار دن سوشل میڈیا پیچھے پڑا رہتا ہے، خبریں بھی لگتی ہیں، پھر وہ ایشو میڈیا اور سوشل میڈیا سے غائب ہی ہو جاتا ہے۔ عام طور سے ایسے ملزم جلد چھوٹ جاتے ہیں کیونکہ کیس کی پیروی کرنے والا کوئی نہیں ہوتا۔
اس کی واحد وجہ سوسائٹی میں رُول آف لا کمزور ہونا ہے۔ اگر لوگوں کو پتہ چلے کہ وہ زیادتی کرنے کے بعد بچ نہیں سکیں گے۔ قانون کی آہنی گرفت میں آئیں گے اور ان کی طاقت، دولت، اثرورسوخ انہیں نہیں بچا سکے۔ کسی کے ساتھ زیادتی کے بعد انہیں کئی برس جیل میں سڑنا پڑیں گے تو یقین کریں وہ جتنے بھی طاقتور اور بااثر ہوں، یوں ظلم کرنے سے پہلے رک جائیں گے۔
یہی مغرب نے کیا ہے۔ وہاں رُول آف لا ہے اور اس کے ثمرات عام شہریوں کو مل رہے ہیں۔
پاکستانی معاشرے کو سدھارنا ہے تو ہمیں بھی یہی کرنا پڑے گا۔
ایک زمانے میں امریکہ کے ایک مشہور مقدمے کے بارے میں پڑھا تھا، اس پر تب شاید کچھ لکھا بھی تھا۔ رول آف لا قائم کرنے میں اس مقدمے نے بہت اہم کردار ادا کیا۔ بدقسمتی سے ہم لباس، کھانے پینے کی ڈشز، رہن سہن اور لائف سٹائل کے دیگر معاملات میں مغرب کی طرف دیکھتے ہیں، مگر ان کی اچھی چیزیں جیسے قانون پر سختی سے عمل درآمد اور عام شہری کو عزت اور توقیر دینے جیسی باتوں پر توجہ نہیں دیتے۔
یہ مقدمہ ریاست امریکہ بنام ہیمسلے کے نام سے معروف ہے، 80 کے عشرے کا کیس ہے۔ یہ دراصل مشہور ارب پتی امریکی بزنس مین خاتون لیونا مینڈی رابرٹس سے متعلق ہے۔ لیونا اور ان کے خاوند ہوٹلنگ کی انڈسٹری میں چھائے ہوئے تھے۔ ان کے مختلف شہروں میں 26 عالیشان ہوٹل اور کئی بزنس سینٹر تھے۔ مین ہٹن نیویارک میں ایک شاندار ہوٹل ہیمسلے پیلس ہوٹل کے نام سے چل رہا تھا۔ سنہرے تکونے گنبد والے اس خوبصورت ہوٹل کو دیکھنے لوگ دور دور سے آتے۔ لیونا مینڈی اور ان کا شوہر چیریٹی کے حوالے سے بھی مشہور تھے، وہ مختلف خیراتی اداروں کو ہزاروں ڈالر ماہانہ کے عطیات دیتے۔ یہ گھرانہ کئی ملین ڈالر سے زائد کا ٹیکس ادا کرتا تھا۔ لیونا خود بھی بڑے تیز کاروباری ذہن کی مالک تھی، اس نے شادی کے بعد اس خوبی سے ہوٹلنگ کے کاروبار کو سنبھالا کہ بورڈ آف ڈائریکٹرزنے اسے ہوٹلوں کی پوری چین کا انتظامی سربراہ چن لیا۔ وہ اس امتحان میں بھی پورا اتری اور بہت جلد اپنے خاوند کے کاروبار کو چارچاند لگا دیے۔
اخبارات میں لیونا مینڈی کو ہوٹل کوئن کے نام سے پکارا جانے لگا۔ لیونا کے خاوند ہیری نے خوش ہو کر اپنی خوش شکل اورزہین بیوی کو نیویارک کے ایک حسین علاقے میں 26 ایکٹر کا رقبہ خرید کر دیا۔ وہاں ایک محل نما حسین کوٹھی اور باغات پہلے سے موجود تھے۔ لیونا یہ تحفہ پا کرجھوم اٹھی، مگر اس کا معیار بہت بلند تھا، وہ اپنی پسند کی چیزوں پر بے تہاشا خرچ کرتی تھی۔ قیمتی اور نایاب اشیا خریدنے کا اسے جنون تھا، اپنی اس شاہ خرچ عادت کے ہاتھوں مجبور ہو کر اس نے اس محل نما گھر کے نئے سرے سے تزئین وآرائش شروع کی۔ دنیا کے مختلف علاقوں سے مختلف چیزیں لائی گئیں۔ ڈانس فلور کے لیے جانے کہاں کہاں سے قیمتی ماربل منگوائے گئے۔ دو سوئمنگ پول بنوائے گئے، جن میں سرد اور گرم پانی کا انتظام تھا۔ ان سوئمنگ پولز کے گرد نایاب اور دلکش پھولوں کے پودے لگوائے گئے۔ ایسا حسین نظارہ جو دیکھنے والے کو مبہوت کرکے رکھ دے۔ گھر میں فرش کے لیے افغانی اور ایرانی قالین، دنیا کے مشہور مجسمہ سازوں سے خصوصی طور پر تیارکرائے گئے آرائشی مجسمے، دیواروں پر آویزاں مصوری کے اوریجنل شاہکار۔

لیونا مینڈی اور ان کے شوہر چیریٹی کے حوالے سے بھی مشہور تھے۔ (فائل فوٹو: نیوزکوم)

لیونا نے اپنے اس گھر کو منفرد اور بے نظیر بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اخراجات بھی بے پناہ ہوئے۔ یہیں پر لیونا مینڈی رابرٹس سے وہ غلطی ہوئی، جس نے اسے معاشرے میں بلند مقام سے نیچے گرا دیا۔ لیونا نے کچھ چیزوں کے اخراجات اپنے ہوٹلوں کے اخراجات میں ظاہر کیے۔ اس طرح وہ کچھ رقم کو کاروباری اخراجات کے طور پر پیش کرنے میں کامیاب رہی۔ لیونا کی ہدایت پر اس کے کارندوں نے بعض انتہائی قیمتی اشیا کی رسیدیں بھی لیوناکے ذاتی اکاؤنٹ کے بجائے ہوٹلوں کے مصارف میں ظاہر کیں۔ بزنس کے لیے مجبور کمپنیوں نے لیونا کی ہدایت پر عمل کیا۔
اس سب کی اطلاع ایک مقامی غیرمعروف جریدے کو مل گئی۔ لیونا کے کسی ملازم نے رنجش یا کسی اور وجہ سے اپنے کسی صحافی دوست کو یہ بات بتلا دی۔ صحافی اس جانب متوجہ ہوئے مگر یہ اس قدر بڑا خاندان تھا کہ بغیر ثبوت کے کچھ لکھنا بھی ممکن نہیں تھا۔ کچھ عرصے کے بعد مقامی اخبار نیویارک پوسٹ نے ایک آرٹیکل کے ذریعے اس انکم ٹیکس گھپلے کی نشاندہی کی۔ اس سکینڈل کی شروع میں کچھ زیادہ پزیرائی نہ ہوئی۔ حکومتی اداروں نے سوچا کہ اتنے ملین ڈالر ٹیکس دینے والے اس خاندان کو چند لاکھ ڈالر کے ٹیکس فراڈ کی کیا ضرورت ہے؟ ٹیکس محکمہ خاموش رہا تاہم اس وقت کے اٹارنی جنرل جیمز آر ڈی ویٹا کی فائلوں میں اس کے ایک اسسٹنٹ نے یہ آرٹیکل رکھ دیا۔

لیونا مینڈی کو ڈیڑھ برس سے زیادہ عرصہ جیل گزارنا پڑا۔ (فائل فوٹو: انویسٹیگیشن ڈیسکوری)

اٹارنی جنرل جیمز بڑا بااصول اور سخت آدمی تھا، وہ رول آف لا کا پرجوش پرچارک تھا۔ اس نے تحقیقات کرانے کا فیصلہ کیا۔ اپنے عملے کے دیگر افراد کو اس نے کہا کہ چھوٹے اور غریب افراد کو قانون کی گرفت میں لانا تو بہت آسان ہے، مگر قانون کی عملداری اس وقت قائم ہوتی ہے جب طاقتور اور بڑے گھرانوں پر اس کا اطلاق کیا جائے۔ اٹارنی جنرل جیمز نے اس خاندان پر ہاتھ ڈالنے کا فیصلہ کر لیا۔ اگلے تین برسوں میں پبلک پراسیکوٹر اور اٹارنی جنرل کے کارندے اس معاملے کی تفتیش کرتے رہے، کئی ہوٹلوں کے اکائونٹس چیک کیے گئے، شہر شہر جا کر گواہوں سے معلومات اکٹھی کی گئیں، کاغذات کی نقول حاصل کی گئیں۔ آخر تفصیلی رپورٹ اٹارنی جنرل کو بھیجی گئی، کئی دنوں تک اس کے تفصیلی معائنے کے بعد جیمز نے حکم جاری کیا کہ لیونا مینڈی کے خلاف ٹیکس چوری کا مقدمہ درج کیا جائے۔
یہ خبر بم بن کر اس ارب پتی خاندان پر پھٹی۔ نیویارک کی بزنس کمیونٹی حیران رہ گئی، تاہم لیونا مینڈی نے سختی سے اس کی تردید کی اور اسے ایک بے بنیاد سکینڈل قرار دیا۔ پراسیکیوٹرز نے لیونا کے خلاف چار ملین ڈالر ٹیکس چوری کا مقدمہ پیش کیا۔ اسی دوران اخباری نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے لیونا کے منہ سے ایک ایسا جملہ نکل گیا، جو اس کے خلاف گیا، اس کا عوامی امیج تباہ ہو کر رہ گیا۔ لیونا نے صحافیوں کے سوالات پر تنک کر جواب دیا تھا کہ ’ٹیکس دینے یا نہ دینے کا ہم امیر لوگ کیا جانیں، یہ تو چھوٹے لوگوں کا کام ہے۔‘ لیونا غالباً یہ کہنا چاہتی تھی کہ مجھ جیسی ارب پتی خاتون کا کام ٹیکس کے بارے میں معلومات لینا نہیں، یہ تو ہماری کمپنیوں کے چھوٹے اہلکاروں یعنی اکاؤنٹنٹ، کلرکوں وغیرہ کا کام ہے۔ غیرمحتاط الفاظ کے چناؤ نے لیونا کو شدید دھچکا پہنچایا۔

جیوری نے متفقہ طور پر لیونا وینڈی کے خلاف فیصلہ دیتے ہوئے اسے مجرم قرار دیا۔ (فائل فوٹو: کال میٹرز)

اس کیس میں اٹارنی جنرل کی معاونت کے لیے پراسیکیوٹر کی جانب سے رڈولف جیولیانی بھی پیش ہوئے۔ یہ وہی جیولیانی ہیں جو نیویارک کے مشہور میئر رہے، نائن الیون کے موقع پر وہی مئیر تھے۔ لیونا کی جانب سے امریکہ کے چوٹی کے قانون دان پیش ہوئے، تاہم پراسیکیوٹر ٹیم نے کیس اس قدر مضبوط بنایا تھا کہ کچھ نہ ہو سکا۔ جیوری نے متفقہ طور پر لیونا وینڈی کے خلاف فیصلہ دیتے ہوئے اسے مجرم قرار دیا۔ جیوری کے اس اعلان کے بعد امریکی جج نے لیونا سے پوچھا کہ اب وہ کیا محسوس کر رہی ہے۔ شاہانہ نخوت کی حامل لیونا کے پاؤں تلے زمین نکل چکی تھی، آنسو بہاتے ہوئے اس نے اپنی غلطی کا اعتراف کیا اور معافی مانگی۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ خود کو اس قدر چھوٹا محسوس کر رہی ہے کہ بس نہیں چلتا کہ زمین میں دھنس جائے۔
اس اعتراف جرم کے باوجود امریکی جج نے لیونا کو ٹیکس چوری کی رقم واپس کرنے کے علاوہ 70 لاکھ ڈالر جرمانہ اورچار برس قید کی سزا سنائی۔ (بعد میں لیونا کوڈیڑھ برس سے زیادہ عرصہ جیل گزارنا پڑا، تب جا کر اس کی رہائی عمل میں لائی جا سکی۔)
جج نے ہوٹل کوئن کے نام سے مشہور لیونا وینڈی کو دیکھتے ہوئے آخری کلمات کہے کہ ’اس مقدمے کی تفتیش اور پھر عدالتی کارروائی کے دوران تمہارا یہی خیال بلکہ زعم تھا کہ تم چھوٹ جاؤ گی۔ مجھے امید ہے کہ جو سزا تمہیں سنا رہا ہوں، وہ ہر بڑے آدمی کے لیے یہ پیغام ہے کہ اس ملک میں صرف اور صرف قانون کی بالادستی ہو گی۔‘

 

شیئر: