Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حکیم سعید سو سال پہلے پیدا ہونے والے ’ایک مزاجاً پاکستانی‘

حکیم سعید نے ہمدرد دواخانہ، ہمدرد فاؤنڈیشن اور ہمدرد یونیورسٹی قائم کی، فوٹو: سوشل میڈیا
پاکستان بننے کے بعد ایک لڑائی ختم ہوئی تو دہلی کے ایک امیر گھرانے میں ایک نئی ’جنگ‘ شروع ہو گئی۔ اس کا ایک نوجوان یہ کہتے ہوئے ’یہاں جس انداز کی حکومت ہے اس کی تابعداری نہیں کی جا سکتی‘ پاکستان جانے پر تُلا تھا۔ والدہ اور بڑا بھائی سمجھا سمجھا کر ہار مان چکے تو اجازت ملی۔
’اب جا ہی رہے ہو تو یہ چادر اور تکیہ میری نشانی کے طور پر اپنے ساتھ رکھنا‘ ماں نے ایک گٹھڑی بڑھاتے ہوئے کہا، جو اس نے نم آنکھوں کے ساتھ تھام لی۔ اسی ’نشانی‘ نے ہی کچھ عرصے بعد زندگی بدل ڈالی۔
اس کے بعد اس نوجوان نے واپس پلٹ کر نہیں دیکھا اور عمر بھر پاکستان نہیں چھوڑا، حتیٰ کہ پاکستان کے لیے جان دے دی۔
یہ نوجوان حکیم محمد سعید تھے جنہوں نے ہمدردی سے بھرپور ’ہمدرد دواخانہ‘ کی بنیاد رکھی جو آج بھی ان کے طے کیے ہوئے خطوط پر خدمات بجا لا رہا ہے۔
آج سے ٹھیک ایک صدی پہلے 9 جنوری 1920 کو دہلی میں پیدا ہونے والے حکیم محمد سعید کی پاکستان آمد کے بعد ان کے بھائی خط و کتابت میں اکثر کہتے ’واپس آ جاؤ، یہاں یہ ہے وہ ہے،‘ جس کے جواب میں وہ لکھتے ’یہاں جو کچھ ہے وہ وہاں نہیں۔‘
جب پاکستان میں کوئی سانحہ ہوتا بھائی کا اصرار بڑھ جاتا، تاہم ان کا فیصلہ اٹل رہتا۔
یہ تکرار خطوط ہی نہیں ملاقاتوں میں بھی سالہا سال چلتی رہی۔
ان کی خواہش تھی کہ ان کی موت بھائی سے پہلے ہو، بھائی جنازے کے لیے آئیں تو کفن ہٹا کر کہیں ’تم صحیح تھے۔‘
ایسا ہوا بھی، وہ بھائی سے قبل یہ دنیا چھوڑ گئے، لیکن کیا ان کے بھائی نے ایسا کہا؟ اس کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں یہ ذہن میں رکھتے ہوئے، کہ جس ملک کے لیے انہوں نے سب کچھ چھوڑا وہاں ان کے ساتھ جو سلوک ہوا کیا وہ اس کے مستحق تھے؟

حکیم سعید کو ان کی خدمات کے صلے میں ستارہ امتیاز سے نوازا گیا، فوٹو: سوشل میڈیا

حکیم محمد سعید کون تھے؟
حکیم محمد سعید کے آبائی خاندان کا تعلق چین کے شہر سنکیانگ تھا، جو سترھویں صدی کے اوائل میں پشاور منتقل ہوا، پھر ملتان اور وہاں سے دہلی منتقل ہوا اور حوض قاضی میں رہائش پذیر ہوا۔ وہیں پر حکیم سعید، حکیم عبدالمجید کے ہاں پیدا ہوئے۔ وہ پانچ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ دو سال کی عمر میں ہی والد کا سایہ اٹھ گیا۔ ان کی تربیت والدہ اور بڑے بھائی حکیم عبدالحمید نے کی۔
حکیم سعید کو صحافت کی طرف رغبت تھی مگر بڑے بھائی کے کہنے پر حکمت کی طرف آ گئے۔
انہوں نے 1936 میں طیبہ کالج دہلی میں شعبہ طب میں داخلہ لیا۔ 1940 میں تعلیم مکمل کر کے بطور معالج کام شروع کیا۔ انہی دنوں قرارداد پاکستان منظور ہوئی اور آزادی کی جدوجہد زور پکڑنے لگی، جس نے ان کے اندر بھی تحریک پیدا کی۔
پاکستان آمد
تقسیم کے ساتھ ہی انہوں نے برملا کہنا شروع کر دیا کہ ’میں مزاجاً پاکستانی ہوں، یہاں رہنا مشکل ہو گا۔‘
وہ پاکستان جا کر مسلمانوں کے لیے کچھ کرنا چاہتے تھے۔
ٹھیک 72 برس قبل یعنی آج ہی کے روز نو جنوری 1948 کو حکیم سعید بیوی، بیٹی اور ماں کی دی گئی ’نشانی‘ لیے دہلی سے نکلے اور کراچی پہنچ گئے۔

حکیم سعید 72 برس قبل دہلی سے نکلے اور کراچی پہنچ گئے، فوٹو: سوشل میڈیا

جب وہ پاکستان پہنچے تو  کسی امیر خاندان کے چشم و چراغ نہیں بلکہ ایک عام سے انسان تھے۔ بالکل خالی ہاتھ، سب کچھ بھائی کو سونپ آئے تھے۔
یہاں رہائش کے مسائل بھی تھے اورغم روزگار بھی، ہمت ہارنے والوں میں سے نہیں تھے، ہر طرح کے حالات کا مقابلہ کیا۔ کچھ روز بعد بارہ روپے ماہوار پر ایک دس بائی دس کا کمرہ حاصل کیا اور وہیں مطب کی بنیاد رکھی۔ کاغذ پر ’ہمدرد مطب‘ اپنے ہاتھ سے لکھ کر لگایا۔ ساڑھے بارہ روپے کا فرنیچر کرائے پر لیا اور یوں ان کے کام کا آغاز ہوا۔
ماں کی نشانی جو نعمت ثابت ہوئی
 ماں کی چادر اور تکیہ انہوں نے ہمیشہ اپنے پاس رکھا۔ اسی تکیے پر سوتے۔ شروع کے سخت ایام میں ان کی اہلیہ نعمت بیگم نے تکیے کا غلاف دھونے کے لیے اتارا اور ہاتھ سے روئی کو ٹھیک کیا تو محسوس ہوا کہ اس میں کچھ ہے۔ انہوں نے کھول کر دیکھا تو اندر نوٹ تھے جو قریباً 25000 روپے تھے۔ انہوں نے حکیم سعید کو دکھائے تو وہ بہت خوش ہوئے اور انہیں یہ بات سمجھ میں آئی کہ ماں نے یہ نشانی کیوں دی تھی۔ اسی پیسے سے، جو اس وقت کافی بڑی رقم تھی، انہوں نے مطب اور دواخانے کو وسعت دی اور دوسرے شہروں میں بھی شاخیں کھولیں۔ کام وسیع ہوتا گیا، ہر گزرتے دن کے ساتھ ان کی شہرت پھیلتی گئی۔
مطب کے معمولات
حکیم سعید کی خاص بات یہ تھی کہ وہ فیس نہیں لیتے تھے، مستحق مریضوں کو دوائی بھی مفت دیتے، بلکہ کچھ مریضوں کی پرچیوں پر لکھ دیتے کہ ’دوائی دینے کے ساتھ ساتھ مالی مدد بھی کر دی جائے۔‘

حکیم سعید ایک ماہ بعد گورنر سندھ کے عہدے سے مستعفی ہو گئے تھے، فوٹو: سوشل میڈیا

بچے ان کی کمزوری تھے، ان کی دراز میں ٹافیوں کے پیکٹ اور کھلونے پڑے ہوتے کسی مریض کے ساتھ بچہ ہوتا، یا مریض ہی بچہ ہوتا ان کو وہ چیزیں دیتے۔ مریضوں سے انتہائی نرمی سے بات کرتے اور موقع کی مناسبت سے کوئی چٹکلہ بھی سنا دیتے جس سے مریض اپنا مرض بھول جاتا۔
حکیم سعید کہا کرتے تھے ’معالج میں روحانیت کا عنصر ہونا چاہیے، جب وہ نبض چھوتا ہے تو انگلیوں سے شعاعیں نکل کر مریض میں منتقل ہو جاتی ہیں، اگر معالج پاکباز ہو گا تو مریض شفایاب ہو گا۔‘
وہ روزے کے حامی تھے اور رمضان کے علاوہ بھی روزے رکھتے تھے۔ دوپہر کے کھانے کے سخت خلاف تھے بلکہ یہاں تک کہا کرتے تھے کہ ’میرا بس چلے تو لنچ پر پابندی لگا دوں۔‘
وہ کہتے تھے ’تین وقت کا کھانا انسانی جسم اور ضروریات کے حساب سے مناسب نہیں۔ اس سے صحت کے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔‘

 گورنر ہاؤس نہیں دواخانہ

’اس عہدے کی وجہ سے میں مریضوں کی بہتر خدمت نہیں کر پا رہا‘ یہ جملہ انہوں نے گورنر سندھ کا عہدہ ملنے کے محض ایک ماہ بعد استعفے کے طور پر لکھا، جسے تین ماہ بعد منظور کر لیا گیا حالانکہ انہیں گورنرشپ پانچ سال کے لیے دی گئی تھی۔
وزارت ملنے کے بعد بھی مطب جانے کا سلسلہ بند نہیں کیا۔

حکیم سعید کو 17 اکتوبر 1998 کو گولی مار کر قتل کر دیا گیا تھا، فوٹو: سوشل میڈیا

انہوں نے ہمدرد دواخانہ، ہمدرد فاؤنڈیشن اور ہمدرد یونیورسٹی جیسے ادارے قائم کیے۔ ’نونہال‘ کے نام سے بچوں کے لیے رسالہ بھی نکالا اور دو سو سے زائد کتابیں لکھیں۔
خدمات کے صلے میں انہیں ستارہ امتیاز سے بھی نوازا گیا۔
درویش سے دشمنی
سراپا شفقت اور امن درویش صفت حکیم سعید، جن کی کسی سے دشمنی نہیں تھی، 17 اکتوبر 1998 کو ان کا جسم اس وقت گولیوں سے چھلنی کر دیا گیا، جب وہ اپنے مطب جا رہے تھے۔ وہ اس وقت بھی روزے کی حالت میں تھے۔
حکیم سعید کا قتل کا سانحہ آج بھی پاکستان کے ان بڑے حادثات میں شامل ہے جو منظقی انجام کے منتظر ہیں۔

شیئر: