Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایم کیو ایم کی روایتی گُگلی یا بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ؟

خالد مقبول صدیقی نے کہا تھا کہ حکومت سازی کے وقت جو وعدے کیے تھے وہ پورے نہیں ہوئے۔ فوٹو: اے ایف پی
متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (ایم کیو ایم) کی طرف سے کابینہ سے الگ ہو کر بھی حکومت سے الگ نہ ہونے اور اپنے پارٹی ممبر وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم کو اپنے ہی فیصلے سے استثنیٰ دینے نے حکومت کے ساتھ ساتھ سیاسی مبصرین کو بھی ابہام کا شکار کر دیا ہے۔
اتوار کو  متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے کنوینر اور وفاقی وزیر برائے انفارمیشن اینڈ ٹیکنالوجی خالد مقبول صدیقی نے وزارت سے مستعفی ہونے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت نے ان کے ساتھ حکومت سازی کے وقت جو وعدے کیے تھے وہ پورے نہیں ہوئے جس کے بعد ان کا وفاقی کابینہ میں بیٹھنا بے سود ہے۔

 

تاہم اس کے باجود ایم کیو ایم کے ہی سینئر رہنما فروغ نسیم کابینہ سے علیحدہ نہیں ہوئے۔ ایم کیو ایم کی اس سیاسی گگلی نے ماضی کی یاد تازہ کر دی ہے جب پاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں اس کی اتحادی ایم کیو ایم متعدد بار ناراض ہو کر حکومت سے علیحدہ ہونے کی دھمکی دیتی تھی اور  مطالبات تسلیم ہونے اور من پسند وزارتوں کے حصول کے بعد پھر رضامندی کے ساتھ حکومت کا حصہ بن جاتی تھی۔
کچھ سیاسی پنڈت ایم کیو ایم کے استعفے کو بڑی سیاسی تبدیلی کا پیش خیمہ قرار دے رہے ہیں اور پیش گوئی کر رہے ہیں کہ دوسرے حکومتی اتحادی بھی معمولی اکثریت سے قائم حکومت کا ساتھ چھوڑنے کے لیے پر تول رہے ہیں اور نئے سیاسی سیٹ اپ کی راہ ہموار ہو رہی ہے۔
تاہم ایم کیو ایم کے رہنما ان تمام امکانات کی نفی کرتے ہیں اور اپنی مشہور منطق دانی کے بھر پور استعمال سے صورتحال کی ایسی منظر کشی کر رہے ہیں کہ کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی۔
اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کرتے ہوئے ایم کیو ایم پارلیمانی پارٹی کے رہنما سید امین الحق نے واضح طور پر کہا کہ ایم کیو ایم حکومت کے خلاف کسی عدم اعتماد کی تحریک کا حصہ نہیں بنے گی بلکہ وہ حکومت کے ساتھ قانون سازی کے عمل میں بھی ساتھ کھڑی ہو گی۔

امین الحق نے واضح طور پر کہا کہ ایم کیو ایم حکومت کے خلاف کسی عدم اعتماد کی تحریک کا حصہ نہیں بنے گی۔ فوٹو: اے ایف پی

 انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم نے گورنر ہاوس میں اسد عمر کی سربراہی میں کراچی بحالی کمیٹی کے آج کے اجلاس میں شرکت اس لیے نہیں کی کہ  اتوار کے استعفے کے بعد صورتحال ابھی تازہ تھی مگر مستقبل میں ایسے اجلاسوں میں شرکت خارج از امکان نہیں۔
ہم حکومت کے ہر اچھے اقدام کے لیے کندھے سے کندھا ملا کر چلیں گے۔ تاہم کچھ معاملات پر ہماری رائے مختلف بھی ہوتی ہے جیسے میں نے نواز شریف کو باہر بھیجنے کے معاملے پر اسمبلی میں کہا تھا کہ حکومت بیمار شخص پر سیاست نہ کرے اسی طرح زرداری صاحب کی  صحت کے معاملے پر بھی بات کی تھی۔  ہمارا اصولی موقف ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم حکومتی بنچوں کا حصہ ہے سرکاری بنچوں پر بیٹھیں گے  لیکن چونکہ حکومت نے ایم کیو ایم کے ساتھ ہونے والی مفاہمت کی یاداشتوں پر عمل نہیں کیا جو کہ زیادہ تر کراچی کے ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل کے حوالے سے تھے تو پارٹی کی رابطہ کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ کابینہ سے علیحدگی اختیار کی جائے۔
تاہم ان سے پوچھا گیا کہ پارٹی کے ہی سینئر رہنما فروغ نسیم تو ابھی تک وفاقی کابینہ کا حصہ ہیں وزارت قانون جیسے قلمدان کے زمہ دار ہیں۔
ایم کیو ایم رہنما کا کہنا تھا کہ فروغ نسیم کو عمران خان نے اپنی حکومت بننے کے فوراً بعد خود وزارت قانون کے لیے منتخب کیا تھا اور ان کی وزارت ایم کیو ایم کے مطالبات میں شامل نہیں تھی اس لیے پارٹی نے انہیں فی الحال اختیار دیا ہے کہ وہ کابینہ کا بدستور حصہ رہیں۔

کنور نوید نے اردو نیوز کو بتایا کہ فروغ نسیم نہ صرف حکومت بلکہ ریاست کے لیے اہم قانون سازی کے معاملات دیکھ رہے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

ایم کیو ایم پاکستان کے ڈپٹی کنوینر کنور نوید نے اردو نیوز کو بتایا کہ فروغ نسیم نہ صرف حکومت بلکہ ریاست کے لیے اہم قانون سازی کے معاملات دیکھ رہے ہیں اس لیے انہیں وزارت رکھنے کی اجازت دی گئی ہے۔
ان سے پوچھا گیا کہ یہ اگر پارٹی نے کابینہ سے علیحدگی کا فیصلہ کیا اور فروغ نسیم نے اس پر عمل نہیں کیا تو کیا یہ پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی نہیں تو ان کا کہنا تھا کہ ایسا نہیں ہے کیونکہ فروغ نسیم کی وزارت عمران خان نے خود آفر کی تھی۔
 ’ایم کیو ایم نے فروغ نسیم کے لیے وزارت نہیں مانگی تھی بلکہ خود وزیراعظم نے انہیں پیش کی تھی اور ایم کیو ایم نے انہیں قبول کرنے کی اجازت دی تھی ۔یہ ایک تکنیکی وزارت ہے جس کا ایم کیو ایم کو کوئی فائدہ نہیں ہے‘۔
ان سے پوچھا گیا کہ کیا گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس یا دوسرے حکومتی اتحادیوں کا بھی ان سے رابطہ ہے تو ان کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم نے استعفے دیتے وقت مسلم لیگ نواز، پیپلز پارٹی سمیت کسی دوسری جماعت کو اعتماد میں نہیں لیا بلکہ صرف پی ٹی آئی کو بار بار ملاقاتوں میں واضح کیا کہ ایم کیو ایم کے ساتھ کیے گئے معاہدے کی پاسداری کی جائے۔ تاہم ایسا نہ کرنے پر انتہائی اقدام اٹھایا گیا۔

شیئر: