Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کراچی میں ’فیس بک نے چوری شدہ گاڑی واپس دلوا دی‘

شہری اپنے مسائل بھی انہی فیس بک گروپس پر بیان کرتے ہیں۔
کراچی میں فیروزآباد تھانے کی حدود میں ایک گاڑی کئی ہفتوں سے کھڑی تھی، اہلِ محلہ شروع میں یہی سمجھتے رہے کہ کسی رہائشی کی ہے مگر جب کھڑے کھڑے گاڑی کی حالت ابتر دکھنے لگی اور کوئی دعویدار نہ آیا تو محلے داروں کو تشویش ہوئی۔
پوچھ مات پر پتہ چلا کہ گاڑی تو اس محلے کے کسی بھی رہائشی کی نہیں، گرد کی تہہ ہٹا کر اندر جھانکا تو توڑ پھوڑ کے آثار دکھے۔ اب تو محلے داروں کو یقین ہوگیا کہ گاڑی چوری کی ہے اور کسی نے واردات کر کے یہاں پارک کر دی ہے۔ بھلا ہو سوشل میڈیا اور فیسبک کا کہ گاڑی اصل مالکان تک پہنچ گئی، مگر کیسے؟
پی سی ایچ ایس کے رہائشی حنین طارق نے اردو نیوز کو بتایا کہ کلیجی رنگ کی ایک آلٹو گاڑی 20-25 دن سے ان کی گلی میں پارک تھی، شروع میں تو انہیں لگا کے کسی محلے دار کی ہے مگر جب کئی دنوں تک اسے نہ کسی نے سٹارٹ کیا، نہ اسکی جگہ بدلی بلکہ دھول مٹی میں اَٹ گئی تب انہوں نے محلے میں پوچھ تاچھ کی پر کسی بھی محلے دار کو اس گاڑی کے حوالے سے کوئی اطلاع نہیں تھی۔
حنین نے کہا کہ اب انہیں تشویش ہوئی لہٰذا انہوں نے گاڑی کا معائنہ کیا تو اندازہ ہوا کہ گاڑی کے ٹائر پنکچر ہیں اور اندر بھی توڑ پھوڑ ہوئی ہے۔ ’مجھے یقین ہوگیا کے ہو نہ ہو یہ گاڑی چوری کی ہے۔‘
حنین نے قریبی فیروزآباد تھانے میں اطلاع کی اور اس حوالے سے تحریری درخواست بھی جمع کروانا چاہی، تاہم پولیس حکام نے انہیں یقین دلایا کہ تحریری درخواست کی ضرورت نہیں وہ اس کے بغیر ہی گاڑی وہاں سے ہٹا کر اپنی تحویل میں کر لیں گے۔ مگر جب اس بات کو بھی کچھ دن گزر گئے تو اہلِ محلہ نے سی پی ایل سی رابطہ کرنے کا سوچا۔ چونکہ گاڑی کی نمبر پلیٹ لگی ہوئی تھی سو آن لائن گاڑی کا ریکارڈ چیک کرنے پر اس میں مسئلہ سامنے آیا۔

حنین طارق نے بتایا کہ کلیجی رنگ کی ایک آلٹو 20-25 دن سے ان کی گلی میں تھی۔

اسی دوران حنین کے بھائی نے انہیں مشورہ دیا کہ کیوں نہ گاڑی کے مالک کا کھوج لگانے کے لیے سوشل میڈیا کا سہارا لیا جائے۔ سو حنین نے گاڑی کی کچھ تصاویر لیں اور انہیں بدھ کو فیسبک کے گروپس میں پوسٹ کردیا۔
کراچی کے لوگوں پر مشتمل فیسبک گروپ 'حالات اپڈیٹس' اور ایک اور 'سول برادرز آف پاکستان' پر حنین نے پوسٹ کیا۔ شام کے وقت حنین سے تیمور نامی شخص نے رابطہ کیا اور کہا کہ یہ گاڑی ان کے دوست کی ہے۔

حذیفہ نے بتایا انکا چھوٹا بھائی 18 دسمبر کی شام یونیورسٹی سے کلاس لے کر نکلا تو گاڑی غائب تھی۔

حنین نے بتایا، ’میں اس وقت دفتر سے واپس آرہا تھا سو میں نے انہیں کچھ دیر بعد کا وقت دیا اور ان سے کہا کہ وہ گاڑی کے ملکیتی ثبوت کے ساتھ آجائیں۔ رات کو ساڑھے آٹھ بجے تیمور اپنے دوست حذیفہ کے ساتھ آیا اور گاڑی کے کاغذات دکھائے، پھر وہ پولیس سے جا کر برآمدگی کا پرچہ بھی لے آئے جس کے بعد انہیں گاڑی حوالے کر دی گئی۔‘
حذیفہ نے بتایا کہ وہ گارڈن ایسٹ کے رہائشی ہیں اور انکا چھوٹا بھائی حنظلہ نیشنل سٹیڈیم کے عقب میں واقع انڈس یونیورسٹی میں پڑھتا ہیں۔ 18 دسمبر کی شام جب وہ یونیورسٹی سے کلاس لے کر نکلا تو گاڑی غائب تھی۔ ’بہت ڈھونڈنے اور پولیس میں رپورٹ لکھوانے کے باوجود بھی گاڑی نہ ملی، تو ہم نے مایوس ہو کر سمجھوتا کر لیا کہ اب اور کیا ہوسکتا تھا۔‘

شام کے وقت حنین سے تیمور نامی شخص نے رابطہ کیا اور کہا کہ یہ گاڑی ان کے دوست کی ہے۔

حذیفہ نے اردو نیوز کو بتایا کہ گاڑی چوری کی رپورٹ عزیز بھٹی تھانے میں کروائی تھی اور وہ ہر کچھ دن پر تھانے جا کر گاڑی کی بابت استفسار کرتے تھے مگر پولیس حکام کے پاس کوئی واضح جواب نہیں ہوتا تھا۔ ’سچ پوچھیں تو ہم تو ہمت ہار چکے تھے، پر بھلا ہو فیسبک کا کہ اس کے توسط سے ہماری چوری شدہ گاڑی واپس مل گئی۔‘
حنین نے بتایا کہ وہ بدھ کی رات ڈیڑھ بجے تک حذیفہ کے ساتھ تھے اور گاڑی واپس لے جانے کے انتظامات میں مدد کر رہے تھے۔ حذیفہ کے مطابق گاڑی کی بیٹری اور ساونڈ سسٹم نکال لیا گیا تھا، گاڑی کے اندر انکے کچھ اہم کاغذات اور ایک بیگ بھی غائب تھا جبکہ گاڑی کے الائے رِم تبدیل کر کے دیسی ساختہ پرانے ٹائر لگا دیے گئے تھے۔

حذیفہ نے بتایا کہ گاڑی چوری کی رپورٹ عزیز بھٹی تھانے میں کروائی تھی

’اس وقت تو گاڑی سٹارٹ نہیں ہو سکتی تھی سو ہم اسے ٹو کر کے لے گئے، پر ہم سب گھر والے اب کافی پر سکون ہیں اور حنین اور ان کے محلے والوں کے شکر گزار ہیں کہ ہماری گاڑی ڈھونڈ دی۔‘
انہوں نے مزید بتایا، ’میری والدہ بہت پریشان تھیں، گاڑی واپس مل جانے پر سب سے زیادہ سکون انہیں کے چہرے پر تھا۔‘
حذیفہ نے کہا کہ ابھی گاڑی میں کچھ کام کروانا پڑے گا تاکہ دوبارہ قابلِ استعمال ہو سکے، پر چلو گاڑی واپس تو ملی۔ انہوں نے فیسبک گروپس کی افادیت کے حوالے سے بھی کہا کہ ایسے گروپس سے بہت کام کی باتیں پتہ چلتی ہیں اور بہت لوگوں کے مسائل حل ہوتے۔

گاڑی کے اندر انکے کچھ اہم کاغذات اور ایک بیگ بھی غائب تھا۔

ان فیسبک گروپس کے ممبران کی تعداد ہزاروں میں ہے اور یہاں پر شہر کے حالات، ٹریفک جام کی صورتحال، کسی مشکل کے حل کے لیے مشورہ، کسی مارکیٹ یا شو روم کے حوالے سے عوامی رائے جاننے، کسی مستحق کی مدد اور اپنے کاروبار کی تشہیر کے حوالے سے روزانہ بیسیوں پوسٹ ہوتی ہیں، جس سے شہری مستفید ہوتے ہیں۔
شہری اپنے مسائل بھی انہی گروپس پر بیان کرتے ہیں جیسے کہ پانی کی فراہمی اور نکاسی کے مسائل، رہزنی اور ڈکیتی کا شکار ہونا، گلی محلوں اور شاہراہوں کی ٹوٹ پھوٹ، ایسی تمام پوسٹ کا نشانہ عوامی نمائندے اور حکومت ہوتی ہے، جواباً سیاسی پارٹیوں کے نچلے عہدیدار یو سی اور کونسلر کے درجے پر ہونے والے ترقیاتی کاموں کی تشہیر بھی کرتے نظر آتے ہیں۔

شیئر: