Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ٹرانسپیرنسی رپورٹ کیسے تیار ہوئی؟

تین اداروں نے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کو پاکستان میں بہتری کی رپورٹ دی، فوٹو: اے ایف پی
کرپشن پر نظر رکھنے والے بین الاقوامی ادارے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل (ٹی آئی) نے اپنی حالیہ رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ ’پاکستان میں 2018 کے مقابلہ میں 2019 میں کرپشن کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے اور پاکستان رینکنگ میں تین درجے نیچے چلا گیا ہے۔‘
رپورٹ کے سامنے آنے کے بعد کئی لوگ سوال پوچھ رہے ہیں کہ آخر کرپشن کے خاتمے کے منشور کے ساتھ اقتدار میں آنے والی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے دور میں کرپشن میں اضافہ کیسے ممکن ہے؟ کہیں رپورٹ میں کوئی جھول تو نہیں یا کرپشن کے ماپنے کا پیمانہ تو خراب نہیں۔ 
اس سوال کا جواب جاننے کے لیے اردو نیوز نے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے ساتھ کام کرنے والے ماہرین سے  بات چیت کی اور تنظیم کی اس سال کی خصوصی دستاویزات کے ذریعے اس کی رپورٹ مرتب کرنے کے طریقہ کار کا جائزہ لیا۔ دستاویزات کے مطابق ٹی آئی دنیا بھر کے 180 ممالک میں 13 بڑے اداروں کے ماہرین کی رپورٹس کی روشنی میں یہ سائنسی جائزہ لیتی ہے کہ وہاں کرپشن کا تاثر کیا ہے۔
ان 13 اداروں میں ورلڈ بینک، ورلڈ اکنامک فورم اور ورلڈ جسٹس پروجیکٹ، اکانومسٹ انٹیلی جنس یونٹ جیسے اچھی ساکھ کے حامل ادارے ہیں۔
پاکستان میں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کیسے رپورٹ لیتی ہے؟
 یہ سارے 13 ادارے اپنی رپورٹ مرتب نہیں کرتے بلکہ آٹھ ادارے ہر سال اپنے ماہرین کے ذریعے مختلف سوالات کے جوابات تلاش کرتے ہیں اور ان جوابات کی روشنی میں گذشتہ سال کے مقابلے میں تقابلی جائزہ لے کر پاکستانی ادراوں کو باقاعدہ نمبر دیتے ہیں جن نمبروں کی اوسط نکال کر ٹرانسپیرنسی پاکستان کو ہر سال کرپشن پرسیپشل انڈیکس میں پوائنٹس دیتی ہے اور ملک کی رینکنگ کا فیصلہ کرتی ہے۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنینشنل کے پاکستان چیپٹر کے سابق سربراہ عادل گیلانی نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’اس سال پاکستان کو آٹھ میں سے پانچ اداروں نے پاکستان کے بارے میں منفی رائے دی جس کی وجہ سے ملک کی رینکنگ میں ابتری دیکھنے میں آئی اور کرپشن کے خاتمے کے حوالے سے اقدامات کے سکور میں بھی 10 سال میں پہلی بار کمی ہوئی۔‘
عادل گیلانی کے مطابق ٹی آئی کوئی سروے نہیں کرتی بلکہ انتہائی سائنسی انداز میں بڑے عالمی اداروں کے ماہرین چند سوالات کے جوابات دیتے ہیں اور ان کی بنا پر رپورٹیں بنا کر ان سب کی اوسط نکالی جاتی ہے۔

پاکستان میں بجلی، گیس اورعدالتی فیصلوں کے لیے رشوت کا رجحان ہے، فوٹو: اے ایف پی

کن اداروں نے پاکستان میں کرپشن کی منفی رپورٹ دی؟

اردو نیوز کے پاس دستیاب ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی دستاویزات کے مطابق اس سال پاکستان میں جن پانچ اداروں نے کرپشن کے حوالے سے منفی رپورٹ دی وہ مندرجہ ذیل ہیں:

ورلڈ اکنامک فورم

اس ادارے نے اپنے ایگزیکٹو اوپینین سروے برائے 2019 میں پاکستان کے بارے میں منفی رپورٹ دی۔ اس کی رپورٹ میں جانچا گیا تھا کہ پاکستان میں کسی فرم کو ان پانچ کاموں کے لیے رشوت دینے کا کتنا رواج ہے؟
جن پانچ کاموں کے لیے رشوت دینے کا پوچھا گیا تھا ان میں درآمدات برآمدات، عوامی سہولیات جیسے بجلی، گیس وغیرہ، سالانہ ٹیکس ادائیگی، لائسنس اور عوامی ٹھیکوں کا حصول اور من پسند عدالتی فیصلے شامل ہیں۔ اس حوالے سے جانچنے کے بعد ورلڈ اکنامک فورم نے رپورٹ دی کہ ان پانچ کاموں کے لیے رشوت دینے کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔

 ورلڈ جسٹس پروجیکٹ 

اس ادارے نے رول آف لا انڈیکس ایکسپرٹ سروے میں جائزہ لیا کہ کیا اعلیٰ حکومتی اہلکار اپنے عہدے کو ذاتی مفاد کے لیے استعمال نہیں کرتے؟ عدالت سے منسلک اہلکار کیا اپنے عہدے کو ذاتی مفاد کے لیے استعمال نہیں کرتے؟ پولیس اور فوج کے اہلکار اپنے عہدے کو ذاتی مفاد کے لیے استعمال نہیں کرتے؟ پارلیمان سے منسلک اہلکار کیا اپنے عہدے کو ذاتی مفاد کے لیے استعمال نہیں کرتے؟ ان سوالات کا جائزہ لینے کے بعد ادارے نے پاکستان کو منفی درجہ دیا ہے۔ 

ورائٹیز آف ڈیموکریسی کے مطابق پاکستان میں سیاسی کرپشن ہے، فوٹو: اے ایف پی 

ورائٹیز آف ڈیموکریسی 

 اس ادارے نے ایک سوال کے ذریعے پاکستان کا جائزہ لیا کہ پاکستان میں سیاسی کرپشن کس حد تک پائی جاتی ہے۔ ماہرین کے جوابات کی روشنی میں اس ادارے نے بھی پاکستان کے حوالے سے منفی رپورٹ دی۔ 

برٹلزمین فاؤنڈیشن 

اس ادارے نے اپنے ٹرانسفارمیشن انڈیکس کے ذریعے 2019 کے حوالے سے پاکستان کو منفی درجہ دیا ہے۔ اس ادارے نے دو سوالوں کے ذریعے پاکستان کا جائزہ لیا تھا۔ پہلا سوال تھا کہ ایسے عوامی عہدیدار جو اپنے عہدوں کا غلط استعمال کرتے ہیں انہیں کس حد تک سزا ملتی ہے؟ دوسرا سوال یہ تھا کہ حکومت کس حد تک کرپشن کو روکنے میں کامیاب ہے؟ ان سوالات کے جوابات کی روشنی میں اس ادارے نے منفی رپورٹ دی۔

 آٹھ میں سے پانچ اداروں نے پاکستان کے بارے میں منفی رائے دی، فوٹو: اے ایف پی

گلوبل انسائٹ کنٹری رسک ریٹنگ 2018
اس ادارے کی رپورٹ میں جائزہ لیا گیا کہ پاکستان میں افراد اور کمپنیوں کو کاروبار کرنے کے لیے رشوت دینے اور کرپشن کرنے پر مجبور ہونے کا کتنا خدشہ ہو گا؟ کمپنی کس حد تک کرپشن کے خطرے کا شکار ہو گی۔ اس ادارے نے بھی اپنی رپورٹ میں پاکستان کے بارے میں منفی رائے دی۔ 

کن ادراوں نے پاکستان کے لیے مثبت رپورٹ دی؟

 ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی اردو نیوز کے پاس موجود دستاویزات کے مطابق تین اداروں نے پاکستان میں کرپشن کے حوالے سے بہتری کی بھی رپورٹ دی مگر ان کی رپورٹ کی بنا پر مجموعی تاثر پھر بھی بہتر نہ ہو سکا اور پاکستان کی رینکنگ میں تنزلی سامنے آئی۔
مثبت رپورٹ دینے والے تین اداروں میں اکانومسٹ انٹیلی جنس یونٹ، پولیٹیکل اینڈ اکنامک رسک کنسیلٹینسی ایشین انٹیلی جنس اور ورلڈ بینک شامل ہیں۔

شیئر:

متعلقہ خبریں