Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سیاست میں کرپشن کی چِپ

پاکستان میں کرپشن اور سیاست کا چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔ ایک بیانیہ یہ ہے کہ کرپشن کے لیے سیاست ہوتی ہے۔ دوسرا بیانیہ یہ ہے کہ کرپشن کی مخالفت کے نام پر بھی سیاست کی جاتی ہے۔ دونوں بیانیے ایسے گڈمڈ ہو گئے ہیں کہ نہ سیاست نظر آتی ہے اور نہ کرپشن کا خاتمہ۔ یہ تمیز کرنا مشکل ہو گیا ہے کہ کہاں کرپشن ہے؟ کہاں سیاست؟
وزیراعظم عمران خان نے اقتدار میں آتے ہی دو بڑی اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں کو ڈاکو اور چور کے القابات دے کر اِن سب کو جیل میں ڈالنے اور قوم کا پیسہ نکلوانے کا اعلان کیا تھا۔ اس کے بعد نیب  نے اہم اپوزیشن رہنمائوں پر مقدمات بنائے اور انہیں گرفتار کیا۔
لیکن اب صورتحال مختلف ہو رہی ہے۔
ضرورت پڑی تو مفاہمت کے راستے نکلے۔ سزا یافتہ نواز شریف کوعلاج کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دی گئی، مسلم لیگ نواز کے صدر شہباز شریف بھی بیرون ملک چلے گئے۔ آصف علی زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور اور سید خورشید شاہ ضمانت پر رہا ہوگئے۔
دسمبر کے آخر میں حکومت نے نیب آرڈیننس میں ترمیم پیش کی ہے۔ جس سے تاجر، سرکاری افسران کے علاوہ سیاستدان بھی مستفید ہوں گے۔
آرمی ایکٹ میں ترمیمی بل کی پوزیشن پر اتفاق رائے اور ایوانوں میں اس کے حق میں ووٹ دینے کے بعد، نیب قانون میں ترمیم اپوزیشن کی مشاورت سے کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے اقتدار میں آتے ہی اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں کو ڈاکو اور چور کے القابات دے کر جیل میں ڈال دیا۔ فوٹو اے ایف پی

سیاستدان قیام پاکستان کے فوراً بعد ہی کرپشن کے الزامات کی لپیٹ میں آنا شروع ہو گئے تھے۔ یہ الزام سیاسی اثر اور حمایت حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا۔
اس وقت کے وزیراعلیٰ سندھ محمد ایوب کھڑو نے کراچی کو سندھ سے علیحدہ کر کے مرکزی حکومت کے حوالے کرنے کی مخالفت کی تو انہیں وزارت سے برطرف کر دیا گیا۔ ان کے خلاف اختیارات کے ناجائز استعمال  وغیرہ کے 62 الزامات عائد کیے گئے۔ ٹائپ رائٹر چوری کے الزام میں اڑھائی سال قید کی سزا سنائی گئی۔ انہیں تین سال کے لیے سیاست میں حصہ لینے سے نااہل قرار دیا گیا۔
جب مصالحت ہوگئی تو ایوب کھڑو کو کابینہ میں لے لیا گیا۔ لیکن ایک سال بعد گورنر سندھ نے ان کے خلاف تحقیقات شروع کر کے ان سے استعفیٰ لے لیا۔ عجیب بات ہے کہ چند ہی ماہ بعد انہیں نگران وزیراعلیٰ مقرر کیا گیا۔  اگلے سال پھر ان پر دیگر سندھ کے سیاستدانوں سمیت پروڈا کے تحت مقدمہ دائر کیا گیا۔
وزیراعظم لیاقت علی خان نے پروڈا نافذ کیا تھا جس کا مقصد کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال کو روکنا بتایا گیا۔ یہ قانون اگرچہ 1949 میں بنایا گیا لیکن اس کو نافذالعمل 1947 سے قرار دیا گیا۔ 
ایوب خان  نے حکمرانی کے دو ہتھیاراستعمال کیے۔ اختیارات کا ارتکاز اور مخالفین کو دھونس دینا اوران کو دبائے رکھنا۔

وزیراعظم لیاقت علی خان نے پروڈا نافذ کیا تھا جس کا مقصد کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال کو روکنا تھا۔ فوٹو سوشل میڈیا

 صدراسکندر مرزا اور ایوب خان کے دور میں ان کے سیکرٹری رہنے والے قدرت اللہ شہاب اپنی یاداشتوں میں لکھتے ہیں کہ 'یہ قانون سیاسی عہدیداروں کے سر پر شمشیر برہنہ کی طرح آویزاں ہو گیا۔  کسی بھی مرکزی یا صوبائی وزیر کے خلاف الزام لگا کرنہایت آسانی سے پروڈا کی صلیب پر لٹکایا جاسکتا تھا۔‘
وہ لکھتے ہیں کہ ’اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ قانون ایک سیاسی ہتھیار کی حیثیت سے عالم وجود میں آٰیا اور سیاسی مقاصد کے لیے استعمال بھی ہوا۔ ایوب خان صرف سیاسی عہدیداروں کی بیخ کنی ہی نہ تھا بلکہ وہ سیاست کے میدان میں سرگرم عمل ان عناصر کو کانٹے کی طرح نکال کر باہر پھینک دینا چاہتے تھے۔‘   
دو سابق وزراء اعظم  ملک فیروز خان نون اور حسین شہید سہروردی، تین سابق وزراء اعلیٰ ایوب کھڑو، افتخار محمد ممدوٹ اور یوسف اے ہارون اور کئی ایک مرکزی و صوبائی وزراء ایبڈو کی زد میں آئے۔
ایوب خان کی اقتدار میں آنے کے بعد ترجیح یہ تھی کہ ملک میں موجود سیاسی نظام کو تباہ کرے۔  
ایوب خان کے اس اقدام نے ایک پورے سیاسی کلاس کو ختم کردیا۔
1988 کے بعد جمہوری دورکی حکومتیں بھی اپنے حریفوں کے خلاف کرپشن چِپ استعمال کرتی رہیں۔ بینظیر بھٹو کی پہلی حکومت کو کرپشن کا الزام لگا کربر طرف کیا گیا۔ بعد میں غلام اسحاق خان نے نجی مشیروں کی مدد سے بینظیر بھٹو اور ان کے شوہر آصف علی زرداری کے خلاف کرپشن کے 20 مقدمات بنائے۔
حسن کمال دیکھیے کہ غلام اسحاق خان نے جب نواز شریف کی حکومت ختم کی تو اسی آصف علی زرداری کو نگراں حکومت میں وزیر بنایا۔

ایوب خان کے چند اقدامات سے ایک پورے سیاسی کلاس ختم ہو گئی تھی۔ فوٹو ویکیپیڈیا

بینظیر بھٹو 1993 میں دوبارہ وزیراعظم بنیں تو انہوں نے سابق وزیراعظم نواز شریف پر لاہور اسلام آباد موٹر وے اور ییلو کیب سکیم میں کمیشن لینے، سرکاری بینکوں سے قرضہ لینے اور پنجاب میں کوآپریٹیو سکینڈل کے ذریعے 18 ارب روپے بنانے کا الزام لگایا۔ نواز شریف اور ان کے خاندان کے خلاف 150 مقدمات دائر کیے گئے۔
نومبر 1996 میں صدر فاروق لغاری نے بینظیر بھٹو کی دوسری حکومت کو ایک بار پھر کرپشن کے الزامات کے تحت برطرف کیا۔ انہوں نے احتساب آرڈیننس جاری کیا جس کے تحت احتساب 1985 سے شروع کیا جاسکتا ہے، یعنی جب ضیاء الحق نے مارشل لاء اٹھایا تھا۔ ضیاء کے مارشل لاء دور کو مستثنیٰ قراردیا گیا۔
نواز شریف دوسری مرتبہ اقتدار میں آئے تو انہوں نے نیا احتساب ایکٹ لاگو کیا اور اپنے دوست سیف الرحمٰن کو چیف احتساب کمشنر مقرر کیا۔ بعد میں  1998 میں احتساب سیل نام تبدیل کر کے احتساب بیورو رکھا گیا۔ اس احتساب بیورو نے سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو اور ان کے شوہر کو خاص طور پر نشانہ بنایا۔
نواز شریف کے تین سالہ دور میں عدلیہ نے بینظیر بھٹو اور آصف علی کو  منی لانڈرنگ کے الزام میں پانچ سال قید اور 6 ملین ڈالر جرمانے کی سزائیں سنائی گئیں۔ فیصلے کے خلاف عدالت عظمیٰ سے رجوع کیا گیا۔
پرویز مشرف نے اقتدارمیں آ کر نواز شریف دور کے احتساب کے قانون کو بدل ڈالا اور ایک خطرناک احتساب آرڈیننس جاری کیا۔  اس نئے  قانون کے تحت نیب کسی بھی شخص کو گرفتار کر کے، کورٹ میں پیش کیے بغیر 90 روز تک اپنی تحویل میں رکھ سکتا ہے۔

پرویز مشرف نے اقتدارمیں آ کر نواز شریف دور کے احتساب کے قانون کو بدل کر ایک خطرناک احتساب آرڈیننس جاری کیا۔ فوٹو: اے ایف پی

جب پرویز مشرف کو اقتدار کو طول دینے کے لیے سیاسدانوں کی ضرورت پڑی تو انہوں نے اکتوبر 2007 میں این آر او جاری کیا۔ جس میں کرپشن، منی لانڈرنگ، خواہ دہشتگردی کے الزامات میں ملوث سیاستدانوں، سیاسی کارکنوں کو معافی دی۔
 سوئس اکائونٹس کے معاملے میں پیپلزپارٹی کو ایک وزیراعظم کی قربانی دینی پڑی۔
تیسری بار نواز شریف وزیراعظم بنے تو انہیں بھی سخت دبائو کو سامان کرنا پڑا بالآخر پاناما گیٹ کھلا تو انہیں پہلے نااہل قرار دیا گیا اور بعد میں سزا سنائی گئی۔
ہر پانچ دس سال بعد خاص انتظامات کے تحت چند افراد کو کرپشن کے الزام میں گرفتار کیا جاتا رہا۔ پھر امید ہو چلتی ہے کہ بلاامتیاز احتساب ہوگا۔ لیکن اگلے دو تین سال میں یہ خواب ادھورا ہی رہ جاتا ہے۔ بعد میں پتہ چلتا ہے کہ اس سے نہ کسی کو سزا ہوتی ہے نہ کرپشن رکتی ہے، بلکہ اس سے کسی کی سیاست ہی آگے بڑھتی ہے۔

شیئر: