Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’ہمیں دنیا کو دکھانا ہوگا کہ ہم کتنے بہتر ہیں‘

شہزادہ خالد بن بندر بن سلطان نے کہا کہ ہمیں ردعمل دینے سے پہلے تمام شواہد کا جائزہ لینا ہوگا (فوٹو:اے ایف پی)
برطانیہ میں سعودی عرب کے سفیر شہزادہ خالد بن بندر بن سلطان نے کہا ہے کہ ’ہمیں دنیا کو بتانا ہوگا کہ ہم کتنے بہتر لوگ ہیں۔‘
شہزادہ خالد بن بندر بن سلطان نے برطانوی اخبار ڈیلی ٹیلی گراف کو بتایا کہ ’ہم ہمیشہ بہتر طور پر اپنی نمائندگی نہیں کرسکتے کیونکہ ہم بنیادی طور پر کم گو ہوتے ہیں، اور ہماری ثقافت بھی ہمیں اپنے بارے میں زیادہ بات کرنے پر زور نہیں دیتی۔‘
شہزادہ خالد بن بندر بن سلطان نے یہ بیان ان حالیہ الزامات کے تناظر میں دیا ہے جن میں کہا گیا ہے کہ امیزون کے سربراہ جیف بیزوس کے موبائل فون کو ہیک کرنے میں سعودی ولی عہد ملوث ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’یہ لوگوں کے لیے بڑا آسان ہے کہ وہ سعودی عرب پر غیر مصدقہ الزامات عائد کردیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ معلومات تک باقائدہ رسائی نہ ہونے کی وجہ سے ریاض کے لیے اپنا دفاع کرنا مشکل ہوگا۔
’ہمیں ردعمل دینے سے پہلے تمام شواہد کا جائزہ لینا ہوگا۔‘
شہزادہ خالد جنہیں گذشتہ سال برطانیہ میں بطور سفیر مقرر کیا گیا تھا، نے لوگوں کو اس بات کی ترغیب دی کہ وہ کوئی بھی رائے قائم کرنے سے پہلے ان کے ملک کا دورہ کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’سعودی عرب کے بارے میں بہت سی غلط فہمیاں ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ لوگ خود آئیں اور سعودی عرب کو دیکھیں، اور جو انہوں نے کہیں پڑھا یا کہیں سے سنا اس کی بنیاد پر رائے قائم نہ کریں۔‘

سعودی ولی عہد پر امیزون کے سربراہ جیف بیزوس کے موبائل فون کو ہیک کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے (فوٹو:اے ایف پی)

شہزادہ خالد کے مطابق ’یہاں دیکھنے کے لیے بہت کچھ ہے، آپ کو اپنے استقبال کے لیے خوش اخلاق، گرم جوش،اور مہمان نواز لوگ ملیں گے۔‘
ایران کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ریاض تہران کے ساتھ کسی قسم کا تنازع نہیں چاہتا لیکن ایران کی خطے میں بے جا مداخلت کو بھی نظر انداز نہیں کرسکتا۔
انہوں نے کہا کہ ’ہم تنازع نہیں چاہتے، نہ ہی (کشیدگی کو) بڑھاوا دینا چاہتے، ہمارا ایران کے لوگوں کے ساتھ کوئی تنازعہ نہیں بلکہ ملک کو چلانے والی حکومت کے ساتھ ہے۔‘
شہزادہ خالد نے جوائنٹ کومپری ہینسو پلان آف ایکشن (عمل درآمد کے مشترکہ جامع معاہدہ) پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’ایران کی خطے میں بے جا مداخلت اتنی ہی چیلنجنگ ہے جتنا کہ اس کا نیوکلیئر پروگرام۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں نیوکلیئر ڈیل پر تحفظات تھے۔‘

شیئر: