Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

امریکہ جیپیں بھیجنے والا پاکستانی مکینک

راولپنڈی کے سٹی صدر روڈ کے قریب نالہ لئی کے کناروں پر پھیلے کچرے اور آلودگی کے پیچھے ایک چھوٹی سی بوسیدہ دکان کے سامنے دراز قد اور بھاری مضبوط شانوں والے ملک فاروق اعوان بالوں کو ماتھے پر سجائے ایک پرانی جیپ کے ڈھانچے پر جھکے اس کا جائزہ لے رہے ہیں۔
یہ ڈھانچہ ملک فاروق اعوان نے پرانی گاڑیوں کی ایک نیلامی سے خریدا ہے۔ اور اب وہ اس کو ایک نئی جیپ میں بدل کر سڑک پر لانا چاہتے ہیں۔
ملک فاروق اعوان کا نام پاکستان میں طاقتور جیپیں پسند کرنے والے حلقوں میں جانا پہچانا ہے۔ وہ پرانی گاڑیوں کے ڈھانچے خرید کر ان کو اپنی مرضی سے نئی شکل دے کر ایسی حالت میں لے آتے ہیں کہ وہ طاقت، رفتار، آرام اور خوبصورتی میں نئی گاڑیوں کے ہم پلہ ہو جاتی ہیں۔ 
فاروق اعوان کی تیار کی گئی کلاسک پرانی جیپوں کا شہرہ اتنا دور تک پھیل چکا ہے کہ اب بیرون ملک بھی ان کی جیپوں کی مانگ پیدا ہو رہی ہے۔
گذشتہ ایک سال کے عرصے میں فاروق اعوان دو جیپیں امریکہ اور برطانیہ بھجوا چکے ہیں۔ جبکہ امریکہ سے آئے ہوئے ایک اور آرڈر کو مکمل کرنے کے لیے وہ ان دنوں ایک اور جیپ پر کام کر رہے ہیں۔ 

فاروق اعوان نے کراچی سے بھی کاروں اور نئی گاڑیوں کا کام سیکھا۔

اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے فاروق اعوان نے بتایا کہ وہ گذشتہ 30 سالوں سے یہ کام کر رہے ہیں اور اب تک ہزاروں ڈھانچوں کو نئی نویلی جیپوں میں بدل چکے ہیں جو نہ صرف سڑک پر چلتے ہوئے انتہائی خوبصورت نظر آتی ہیں بلکہ اپنی مرضی کے آلات لگانے کے باعث نئی گاڑیوں جتنی آرام دہ اور طاقتور بھی بن جاتی ہیں۔
فاروق اعوان کا آغاز بھی پاکستان کے ہر مکینک کی طرح کا ہے۔
 ’پڑھائی میں دل نہیں لگتا تھا۔ والدین اور گھر والوں کے لاکھ سمجھانے کے باوجود ساتویں جماعت میں سکول چھوڑ دیا تھا۔ پھر والد صاحب نے ورکشاپ پر بٹھا دیا اور آج تک اسی کام میں لگا ہوا ہوں۔‘
لیکن فاروق اعوان عام مکینکوں سے زیادہ خوش قسمت اس لیے تھے کہ انہوں نے بچپن سے ہی لاتعداد جیپوں کوخراب اور ٹھیک ہوتے،  تباہ و برباد ہوتے اور پھر سے نیا ہو کر سڑکوں، بیابانوں اور پہاڑوں پر فراٹے بھرتے دیکھ رکھا تھا۔
ان کے والد پاکستانی فوج کی ایک ورکشاپ میں چیف مکینک تھے، جہاں پر فوجی جیپوں کی مرمت ہوتی تھی۔ 

مکینک فاروق اعوان کو امریکہ سے ایک اور جیپ بنانے کا آرڈر ملا جس پر وہ آج کل کام کر رہے ہیں۔

ورکشاپ پر آنے کے بعد فاروق اعوان کچھ عرصے کے لیے کراچی بھی گئے تا کہ وہ کاروں اور نئی گاڑیوں کا کام سیکھ سکیں لیکن ان کا دل عام گاڑیوں میں نہیں لگا۔ وہ واپس راولپنڈی آگئے اور پھر سے جیپوں کی مرمت کا کام شروع کردیا۔
فاروق کے بڑے بھائی بھی مکینک تھے جب کہ ایک چھوٹے بھائی ڈینٹیر تھے، جس نے ان کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ تباہ ہوئی جیپوں کے ڈھانچوں کو خرید کر بھائیوں کے ساتھ مل کر ان کو دوبارہ سے مکمل طور پر تیار کر کے پھر سے نیا کر دیں۔
لیکن ان کا کام اس وقت زیادہ چمکا جب کچھ سال پہلے پاکستان میں جیپ ریلیوں کا سلسلہ شروع ہوا اور اس کے شوقین افراد نے اپنی گاڑیوں کو طاقتور بنانے کے لیے ان کے پاس آنا شروع کیا۔
پھر ان کا ذکر ’جیپ کلبز‘، گاڑیوں کی خرید و فروخت اور معلومات دینے والی ویب سائٹس اور فیس بک پر ہونے لگا، جہاں سے ان کی شہرت دنیا بھر میں پہنچ گئی اور بیرون ملک کچھ پاکستانیوں نے ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا۔
’ایک روز میں ورکشاپ میں بیٹھا ہوا تھا کہ مجھے انگلینڈ کے ایک نمبر سے کال آئی۔ میں نے فون سنا تو دوسری طرف موجود صاحب نے مجھ سے ان کے لیے جیپ تیار کرنے کی درخواست کی‘ 
  ’جب وہ گاڑی میرے پاس آئی تو بہت بری حالت میں تھی۔ میں نے اس میں نیا انجن لگایا۔ تمام پرزے لگائے، ڈینٹنگ اور پینٹنگ کروائی اور مکمل طور پر نیا بنا کر انگلینڈ بھجوا دی۔‘

ملک فاروق اعوان کا نام پاکستان میں طاقتور جیپیں پسند کرنے والے حلقوں میں جانا پہچانا ہے۔

اس کے بعد فاروق کو امریکہ سے آرڈر آیا۔ یہ آرڈر دینے والے دو کزنز تھے جنہوں نے فاروق کی بنائی ہوئی گاڑیاں دیکھی اور ان کی شہرت سنی تھی۔
اس کے بعد انہیں امریکہ سے ہی ایک اور جیپ بنانے کا آرڈر ملا جس پر وہ آج کل کام کر رہے ہیں۔

پرانے ڈھانچے نئی جیپیں کیسے بنتے ہیں؟

فاروق اعوان کے مطابق 1972 اور 1982 ماڈل کی پرانی جیپیں جو شائقین میں زیادہ مقبول ہیں کا پرانا ڈھانچہ تین لاکھ روپے تک ملتا ہے۔ ان میں سے کچھ ایسے ہوتے ہیں جو سڑک پر چلائے جا سکتے ہیں جبکہ کچھ بالکل ہی بری حالت میں ہوتے ہیں۔

ان ڈھانچوں کو مکینک فاروق اعوان نئی شکل دیتے ہیں۔

فاروق ان کو ورکشاپ لاتے ہیں اور ان کے تمام پرزوں کو کھول دیتے ہیں۔ پھر وہ اس کے ہر حصے کو متعلقہ کاریگر کے حوالے کرتے ہیں جو جائزہ لے کر مرمت کے قابل چیزوں کی مرمت اور نئی لگنے والی چیزوں کو کباڑئیے یا سپیئر پارٹس کی دکانوں سے خرید کر گاڑیوں میں لگاتے ہیں۔ گاڑی کو مکمل طور پر نیا پینٹ کیا جاتا ہے۔
کچھ بہت زیادہ شوق رکھنے والے صارفین کئی پارٹس درآمد بھی کرواتے ہیں، جبکہ نایاب ہو جانے والے پرزے چند مقامی فیکٹریز سےتیار کروائے جاتےہیں۔
فاروق کا کہنا ہے کہ اگرچہ جیپ کی لاگت اس کے مالک کے شوق اور معیار پرمنحصر ہے تاہم  ایک اچھی جیپ کی تیاری پر20 سے 28 لاکھ روپے تک خرچ ہوتے ہیں۔ جبکہ ایک مناسب جیپ 12 سے 16لاکھ روپے میں بن جاتی ہے۔ ایک جیپ کی تیاری میں چار ماہ کا وقت لگتا ہے۔

فاروق اعوان اب تک ہزاروں ڈھانچوں کو نئی نویلی جیپوں میں بدل چکے ہیں۔

پاکستانی جیپوں میں گوروں کی دلچسپی

فاروق اعوان سے جیپ تیار کروا کر برطانیہ درآمد کرنے والے سول انجینیئر محمد شفیق کا کہنا ہے کہ انہیں فور بائی فور گاڑیوں کا بہت شوق ہے اور انہوں نے پاکستان سے جیپ خریدنے سے پہلے اٹلی اور پرتگال سے اپنی پسندیدہ گاڑی لینے کی کوشش کی لیکن انہیں ایسی گاڑی نہیں ملی۔
جب وہ نیلے رنگ کی پاکستانی جیپ انگلینڈ کی سڑکوں پر چلاتے ہیں تو غیر ملکی گورے اس کو گہری دلچسپی سے دیکھتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اس سے انگلینڈ میں پاکستان کا امیج بہتر بنانے اور پاکستان کے ٹیلنٹ کو فروغ دینے کا موقع ملا ہے۔

محمد شفیق کے مطابق جب وہ نیلے رنگ کی پاکستانی جیپ انگلینڈ کی سڑکوں پر چلاتے ہیں تو غیر ملکی اس کو دلچسپی سے دیکھتے ہیں۔

شفیق نے اردو نیوز کو بتایا کہ اس جیپ کی تیاری کے دوران انہوں نے اس پراجیکٹ کی نگرانی کے لیے پاکستان میں ایک نمائندہ مقرر کر رکھا تھا جو انہیں ایک ایک مرحلے کی تصاویر بنا کر بھیجتا تھا اور روزانہ کی پیشرفت سے آگاہ کرتا تھا۔
’یہ پراجیکٹ گذشتہ سال 17 مارچ کو شروع ہوا تھا جبکہ 20 نومبر کو گاڑی میرے پاس انگلینڈ پہنچ گئی تھی۔ اس کی تیاری پر تیس لاکھ روپے سے زائد خرچ آیا ہے جب کہ اس کو برطانیہ درآمد کرنے پر خرچ ہونے والے تین ہزار پاؤنڈز علیحدہ ہیں۔‘

فاروق اعوان گذشتہ 30 سالوں سے مکینک کا کام کر رہے ہیں۔

’پڑھے لکھے‘ لہجے والا مکینک

فاروق اعوان سے بات کی جائے تو یہ محسوس نہیں ہوتا کہ وہ ایک کم پڑھے ہوئے عام مکینک ہیں۔ وہ سلیس اردو بولتے اور کئی معاملات میں  انگریزی اصطلاحات استعمال کرتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ان کے لہجے میں یہ شائستگی پڑھے لکھے گاہکوں کی وجہ سے ہے جن کے ساتھ وہ کئی سالوں سے کام کر رہے ہیں اور  ان کے ساتھ ہونے والی گفتگو سے ہمیشہ سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

شیئر: