Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ارکان پارلیمان کی تنخواہیں بڑھانے کا بل مسترد

بل پیش کرنے کے حق میں 16 اور مخالفت میں 29 ووٹ آئے (فوٹو: سوشل میڈیا)
پاکستان کے ایوان بالا میں چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین سینیٹ، سپیکر اور ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی کی تنخواہوں میں اضافے کا بل پیش کرنے کی تحریک تو مسترد ہوگئی لیکن بل پر ہونے والی بحث سے یہ تاثر عام تھا کہ ارکان چاہتے تھے کہ ان کی تنخواہوں میں اضافہ ہو لیکن عوامی ردعمل سے ڈرتے ہوئے بل کی مخالفت کی۔
سینیٹ کا اجلاس پیر کو چیئرمین سینیٹ محمد صادق سنجرانی کی زیر صدارت ہوا۔ اجلاس میں چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین سینیٹ، سپیکر اور ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی کی تنخواہوں میں اضافے کا بل پیش کرنے کی تحریک پیش ہوئی تو حکومت کی جانب سے اس بل کی مخالفت کرتے ہوئے تجویز آئی کہ اس پر بحث ہونا چاہیے۔
بل کے محرک آزاد سینیٹر نصیب اللہ بازئی نے کہا کہ ’یہ بل میں اور میرے ساتھی ایوان میں لائے ہیں۔ چیئرمین سینیٹ اور سپیکر قومی اسمبلی کے عہدے اہم ہیں۔ پاکستان میں تمام اداروں جج، اتھارٹی سربراہ یا دیگر سربراہان کی تنخواہ سات آٹھ لاکھ روپے ہے۔ لیکن چیئرمین سینیٹ کی تنخواہ دو لاکھ سے زیادہ نہیں۔ چیئرمین سینیٹ اور سپیکر کی تنخواہ اور مرعات میں اضافہ کیا جائے۔‘
حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والے وزیر پارلیمانی امور اعظم سواتی نے کہا کہ ’حقائق کو دیکھا جائے تو بازئی جو کہہ رہے ہیں وہ سچ ہے۔ محتسب اعلیٰ کی تنخواہ 14 لاکھ ہے، سیکرٹری کی تین لاکھ ہے۔ ریگولیٹری اتھارٹی سربراہان کی تنخواہ سات آٹھ لاکھ روپے ہے۔ یہ سارا نظام ناانصافی پر مشتمل ہے۔ حکومت تاہم بل کی مخالفت کرے گی۔ اس بل پر بحث ہونی چاہیے۔
پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ ’بزنس ایڈوائزری کمیٹی کے اجلاس میں پارٹی کی جانب سے بل کی مخالفت کا بتایا تو پی ٹی آئی کے ممبران نے میری مخالفت کی تھی۔
انھوں نے کہا کہ ’زمینی حقائق بہت ظالمانہ ہیں۔ عوام پر جو گزر رہی ہے اسے ہم نظر انداز نہیں کر سکتے۔ ملک میں شدید اقتصادی بحران ہے۔ اگر ہم نے اس وقت یہ بل منظور کیا تو بہت منفی پیغام جائے گا۔
ایم کیو ایم کے سینیٹر بیرسٹر سیف بولے کہ ’تنخواہ کے بڑھنے سے قومی خزانہ پر اتنا بوجھ نہیں پڑتا۔ جنھوں نے تنخواہ نہیں لینی وہ نہ لیں۔ بلکہ جو ڈیڑھ لاکھ ٹی اے ڈی اے لے رہے ہیں وہ ایدھی سینٹر یا شوکت خانم میں دے دیں۔
پی کے میپ کے سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ ’ایوان کی اکثریت چاہتی ہے کہ تنخواہ بڑھے لیکن سیاست کرتے ہیں۔ ججز کی تنخواہ کیوں زیادہ ہے، قابل وکلاء ججز نہیں بننا چاہتے ہیں کیونکہ ان کی آمدن بہت زیادہ ہے۔

ویزر پارلیمانی امور اعظم سواتی نے بل کی مخالفت کا اعلان کیا (فوٹو: سوشل میڈیا)

 ان کے مطابق ’ایوان میں ارب پتی سینیٹرز بھی ہیں لیکن وہ یہ ڈیڑھ لاکھ تنخواہ نہیں چھوڑ رہے۔ ہم ابھی سترہ گریڈ کے افسر کی تنخواہ بھی نہیں لے رہے ہیں۔ اس ایوان کو اتنا بھی ڈی گریڈ نہیں کرنا چاہیے۔
امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے چیئرمین سینیٹ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’چیئرمین سینیٹ آج تو آپ بہت خوش نظر آ رہے ہیں۔ لیکن تنخواہ میں اضافہ نہیں ہوگا۔ اگر ہم سیاست عبادت کے طور پر کرتے ہیں تو عبادت پر تنخواہ نہیں  ہوتی۔
اس موقع پر سینیٹر پرویز رشید نے وزیر اعظم پر تنقید کے نشتر خوب برسائے اور بولے ’تنخواہ بڑھے نا بڑھے وہ ٹیکہ مل جائے اور لگ جائے کہ مجھے روپیہ ڈالر کی شکل میں نظر آئے۔ ایسے دوست لا دیں جو ہم پر خرچہ کریں ، جو ہمیں جہازوں میں لیکر چلیں۔
انھوں نے کہا کہ ’جب دوست وزیر اعطم کے اخراجات اٹھائیں گے تو پوری قوم کو دوستوں کی اخراجات اٹھانے پڑیں گے۔
ڈاکٹر اشوک کمار نے کہا کہ ’ابھی سینیٹرز دوست لابی میں بیٹھ کر بات کر رہے تھے کہ بل تو اچھا ہے لیکن ہماری پارٹی پالیسی الگ ہے۔ اب انھیں خوف ہے کہ عوام کیا بولے گی۔ بل پر خفیہ رائے شماری کرائیں 99 فیصد ووٹ بل کی حمایت میں آئیں گے۔

پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ زمینی حقائق بہت ظالمانہ ہے (فوٹو: سوشل میڈیا)

اس موقع پر چیئرمین سینیٹ نے ہنستے ہوئے تجویز دی کہ بل پر خفیہ رائے شماری کرا لیں؟ تو سینیٹر دلاور خان بولے کہ ’ خفیہ رائے شماری کرا لیں بل کو 104 ووٹ ملیں گے۔ چیئرمین صاحب آپ رولنگ دے کر ہماری تنخواہ چوکیدار کے برابر کر دیں۔
بل پیش کرنے والے نصیب اللہ بازئی کا کہنا تھا کہ سب سینیٹرز نے بل پیش کرنے کے حوالے سے صبح حمایت کی تھی۔ اب سب سینیٹرز بدل گئے ہیں۔ میں یہ بل پیش ہی نہیں کرتا۔ جس پر چیئرمین نے کہا کہ بل تو پیش کرنا ہی پڑے گا۔
بحث کے بعد بل پیش کرنے کی تحریک پیش کی گئی تو حمایت میں 16 اور مخالفت میں 29 ووٹ آئے۔ مسلم لیگ ن کے دلاور خان اور یعقوب خان ناصر  نے بل کے حق میں ووٹ دیا۔ پی کے میپ ، نیبشل پارٹی ، جمعیت علماء اسلام ف ،اے این پی  اور ایم کیو ایم نے بھی بل کی حمایت کی۔ پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ ن، پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی کی بل کی مخالفت کیں۔

شیئر: