Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’انقلاب کیسے آئے گا؟ بتائیں نا انکل؟‘

پیٹرول کی قیمت میں چھ پیسے کمی سے عوام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ فوٹو: اے ایف پی
جیسے ہی  پٹرول کی قیمت میں چھ پیسے کمی کی تجویز حکومت کو پیش کی گئی۔ یقین مانیے پورے ملک میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ حکومتی وزرا بیان دینے لگے کہ یہ ہوتا ہے لیڈر، یہ ہوتا ہے وژن۔
میڈیا کے ایک حلقے میں پھر نعرہ بلند کیا گیا کہ اگر قیادت درست میسر آئے تو سب کچھ ہو سکتا ہے۔ ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ تاریخ بدل سکتی ہے۔ زمانہ بدل سکتا ہے۔ فلاحی ریاست بن سکتی ہے۔ غربت مٹ سکتی ہے۔ انقلاب آ سکتا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔
سوشل میڈیا والے بھی تیز ہو گئے۔ حکومت کے دفاع میں اس سے بڑی دلیل کیا ہو سکتی ہے کہ پٹرول کی قیمت میں یک دم پورے چھ پیسے کی کمی۔ سوشل میڈیا والے اپوزیشن کے حامیوں پر تاک تاک کر حملے کرنے لگے۔ بار بار ان سے پوچھنے لگے کیا آپ کے لیڈروں نے کبھی پٹرول کی قیمت ایک پیسہ بھی کم کی؟ یہ اعزاز صرف ہمارے لیڈر کو حاصل ہے۔

 

 یہی وہ شخص ہے جو امت مسلمہ کی امنگوں کا ترجمان ہے۔ یہی ہم سب کا نیا پاکستان ہے۔
بات میڈیا اور سوشل میڈیا تک محدود نہیں رہی۔ اس خوشخبری سے ملک کے طول و عرض میں جشن کا سماں تھا۔ گاؤں میں لڑکیاں سنہری گندم کے کھیتوں میں رقص کرنے لگیں۔ ڈھولی ڈھول بجانے لگے۔ کسان بھنگڑے ڈالنے لگے۔ سردیوں میں ہی بسنت منائی جانے لگی۔ ساون کا انتظار کیے بغیر ہی پکوان چڑھنے لگے۔ دھوپ اور سنہری ہونے لگی اور سارا ملک ترقی کے گیت گانے لگا۔
یہ کیفیت صرف پنجاب تک محدود نہیں رہی۔ خیبرپختونخوا میں ٹولیوں میں خٹک ڈانس شروع ہوگیا۔ سندھ کے لوگ روایتی میٹھی دھنوں پر رقص کرنے لگے۔ بلوچستان میں تلواروں سے لہو کو گرما دینے والے رقص مستانہ کی شروعات ہو گئی۔ خوشی کا عالم تمام ملک پر طاری ہو گیا۔ لگتا تھا کہ لوگ اس خوشخبری کو سن کو ہوش و حواس کھو بیٹھے۔
جس طرف دیکھیں جشن کا سماں تھا۔ امید تھی، امنگ تھی۔ عوام الناس ایک نئے جذبے سے سرشار تھے۔ نوجوان اپنے اپنے شعبے میں محنت کرنے لگے کہ اب ملک کو درست قیادت میسر آئی ہے، اب ایک صالح لیڈر نصیب ہوا ہے۔ اب تقدیر بدلنے والی ہے۔ اس لیے ملک کی ترقی میں اب انہیں اپنا حصہ ادا کرنا ہے۔
نوجوانوں نے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں زور و شور سے تعلیم حاصل کرنا شروع کر دی۔ موبائل  پر خواتین کو بہانے بہانے سے ان باکس میں اپنا موبائل نمبر بھیجنا ترک کر دیا۔ جن چالباز اور ہنر مند نوجوانوں نے لڑکیوں کے نام سے فیس بک پر اپنی آئی ڈی بنائی ہوئی تھی انہوں نے جذبہ حب الوطنی کے تحت ایسی آئی ڈیز منسوخ کر دیں اور خود کو ملکی ترقی کے لیے وقف کرنے کا فیصلہ کر دیا۔

پٹرول کی قیمت میں اس حد تک کمی کا سن کر تو کچھ خواتین گھروں سے پرچم لے کر باہر آگئیں. فوٹو: اے ایف پی

دوسری جانب خواتین نے عشقیہ ڈرامے دیکھنا چھوڑ دیئے۔ ’میکا سنگھ ‘ کے گیت گانا ترک کر دیئے۔ دوپٹوں اور کناریوں کی گفتگو سے توبہ کر لی۔ کزن کی شادی پر ہونی والی غیبتوں سے تائب ہو گئیں۔ ہر خاتون نے وطن کی خدمت پر کمر کس لی۔ تعلیم اور ہنر میں اپنا نام بنانے کا فیصلہ کیا۔
پٹرول کی قیمت میں اس حد تک کمی کا سن کر تو کچھ خواتین گھروں سے پرچم لے کر باہر آگئیں اور وطن کے گیت گانے لگیں۔  حد تو یہ ہے کہ ’میرے پاس تم ہو‘ والے پوسٹر میں اب دانش کی جگہ وزیر اعظم کی تصاویر نمایاں ہونے لگیں۔
نوجوان مرد و خواتین کو دیکھ کر بزرگ بھی اس پر مسرت گھڑی میں قوم کی خدمت کے لیے آگے بڑھے۔ کچھ نے آئندہ نوجوانوں کی سرگرمیوں پر نگاہ نہ رکھنے کی قسم کھائی۔ کچھ نے اپنی ریٹائرمنٹ منسوخ کروائی اور اپنے سابقہ دفاتر میں فی سبیل اللہ ملک کی خدمت کو پہنچ گئے۔ کچھ نے لاٹھی کو تیاگ دیا۔ کچھ نے گھر والوں کو جلانے کی خاطر بلاوجہ اور باموقع کھانسنے سے توبہ کی۔ کچھ کھیلوں کے میدان میں ہانپتے کانپتے پہنچ گئے۔
ساری قوم پر اس سرمستی کا راز یہ تھا کہ ملک میں لوگوں کو سمجھ آگئی تھی کہ جو وزیر اعظم پٹرول کی قیمت چھ پیسے کم کرنے پر غور کر سکتا ہے وہ کچھ بھی کرسکتا ہے۔ اس سے کچھ بھی بعید نہیں ہے۔

ملک بھر میں جشن کی اس کیفیت کو اچانک کسی کی نظر لگ گئی۔ فوٹو: اے ایف پی

پٹرو ل کی قیمت میں اتنی کمی کی نوید سن کر عوام کو یوں لگا جیسے گروتھ ریٹ اچانک سے بڑھ گیا ہو۔ جیسے آٹا سستا ہو گیا ہو۔ جیسے چینی مفت بٹنا شروع ہو گئی ہو۔ جیسے گیس کا بل آنا بند ہو گیا ہو۔ جیسے بجلی سستی ہو گئی ہو۔ جسے ٹماٹر سترہ روپے کلو ہو گئے ہوں۔ جیسے عوام کی قمیص میں ایک نورانی سوراخ ہو گیا ہو۔ خوشی سے نہال سب نیم مدہوش سے ہو رہے تھے۔ ہر مسئلے کا حل نکلتا نظر آ رہا تھا۔ ہر مشکل آسان ہو رہی تھی۔ ہر خواب تعبیر پا رہا تھا۔ چاروں طرف قوس قزح بکھر گئی تھی۔
پھر ہوا یوں کہ  خبر آئی کہ حکومت نے پٹرول کی قیمت میں چھ پیسے کمی کی تجویز بھی مسترد کر دی۔  یہ سننا تھا کہ ملک بھر میں جشن کی اس کیفیت کو اچانک کسی کی نظر لگ گئی۔
رقص کرنے والے تھم گئے۔ ڈھولی سہم کر خاموش ہو گئے۔ نوجوانوں کو قرار آ گیا۔ عورتیں منہ چھپا کر رونے لگیں۔ بچے ماؤں کی گودوں میں چھپ گئے۔ بزرگوں کو چپ سی لگ گئی۔ سناٹا سا چھا گیا۔ صرف کوؤں کی کائیں کائیں سنائی دینے لگی۔

سب جوش خروش ختم ہو گیا۔ سارا منظر ہی بدل گیا۔ خوشی ماتم میں بدل گئی. فوٹو: اے ایف پی

سب جوش و خروش ختم ہو گیا۔ سارا منظر ہی بدل گیا۔ خوشی ماتم میں بدل گئی۔ کالے بادل چھا گئے۔ اسی طوفان میں سے ایک لمبا تڑنگا نوجوان برآمد ہوا۔ جس کی شربتی آنکھوں پر سیاہ چشمہ اور بدن پر اسی رنگ  کی کارٹون والی شکستہ  ٹی شرٹ تھی۔ بالوں میں اس نے خوب جیل لگا کر پنکھ بنایا ہوا تھا۔ وہ حوصلہ مند جوان، آنکھوں میں آنسو بھر کر، عجب روہانسی سی بچگانہ آواز میں بولا۔ ’دیکھیں ہم سارے اچھے فیملی کے لوگ ہیں۔ سڑکوں پر آئے ہیں نئے پاکستان کا جشن منانے۔ نعرے لگانے کے لیے۔ ہر بندہ اپنے گھر سے نعرے لگانے آیا ہے لیکن انکل آپ خود بتائیں کہ اگر حکومت پٹرول کی قیمت میں چھ پیسے کمی کی تجویز بھی مسترد کر دے گی تو پھر اس طرح انقلاب کیسے آئے گا؟ بتائیں نا انکل ؟‘

شیئر: