Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ژوب کا مندر 70 سال بعد ہندوؤں کے حوالے

اقلیتی برادری کو ان کی عبادت گاہ ستر سال بعد واپس ملی ہے
بلوچستان کے ضلع ژوب میں سو سالہ قدیم مندر کو 70 سال بعد ہندو برادری کے حوالے کردیا گیا۔ قیام پاکستان کے بعد ہندو برادری کی نقل مکانی کرنے کی وجہ سے اس مندر کی عمارت میں سرکاری سکول قائم تھا۔ 
جمعرات کو مندر کے احاطے میں منعقدہ تقریب میں ڈپٹی کمشنرژوب طحہٰ سلیم اورژوب کی مرکزی جامع مسجد کے خطیب اور جمعیت علمائے اسلام کے رہنما مولانا اللہ داد کاکڑ نے ہندو برادری کے رہنماوں کو مندر کی چابیاں حوالے کیں۔ 
ڈپٹی کمشنرژوب طحہٰ سلیم کے مطابق آج بلوچستان اور ژوب کی تاریخ کا اہم دن ہے۔ مذہبی ہم آہنگی کی یہ ایک اچھی مثال ہے کہ جامع مسجد ژوب کے خطیب مولانا اللہ داد نے نہ صرف اس فیصلے کی حمایت کی بلکہ تقریب میں بطور مہمان خصوصی شرکت کی۔
پوری دنیا کو دیکھنا چاہیے کہ ہمارے علماءکرام نے کتنی فراخ دلی کے ساتھ اقلیتی برادری کو گلے سے لگایا ہے۔ 

 
ڈپٹی کمشنر نے بتایا کہ تاریخی مندر میں تیس سال قبل سرکاری پرائمری سکول قائم کیا گیا تھا۔ مندر کی حوالگی سے قبل اسکول کو دوسری عمارت میں منتقل کردیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ اقلیتی برادری کو ان کی عبادت گاہ ستر سال بعد واپس ملی ہے اتنی تاخیر ہونے پر ہم اقلیتی برادری سے معذرت بھی چاہتے ہیں۔

 اقلیتی برادری بچوں کی تعلیم کی وجہ سے قربانی دیتے رہے۔ انہوں نے کہا کہ مندر کی عمارت کو دوبارہ بحال کیا جائےگا۔ بحالی کے بعد اس مندر میں نہ صرف ہندو برادری اپنی رسوم ادا کرسکے گی بلکہ دور دراز سے زائرین بھی آسکیں گے۔ 
ژوب کی ہندو برادری نے 70 سال بعد مندر ملنے پر خوشی کا اظہار کیا۔ژوب میں اقلیتی برادری کی کمیٹی کے چیئرمین سلیم جان نے اردو نیوز سے ٹیلیفون پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آج انتہائی خوشی کی بات ہے کہ ہمیں ستر سال بعدپھر اس مندر میں رسوم ادا کرنے کا موقع مل گیا۔
انہوں نے بتایا کہ کچھ عرصہ قبل چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ جسٹس جمال مندوخل نے اس مندر کا دورہ کیا تھا تو ہم نے ان سے مطالبہ کیا کہ مندر کی عمارت ہندو برادری کے حوالے کی جائے جس پر انہوں نے ہمیں یقین دلایا۔ ہم چیف جسٹس اورضلعی انتظامیہ کے مشکور ہیں انہوں نے ہمارا مطالبہ پورا کیا۔

سلیم جان کے مطابق بابو محلہ میں واقع یہ مندر سو سال نہیں تقریباً دو سوسال قدیم ہے اور اسے پہاڑ کاٹ کر تعمیر کیا گیا تھا۔ژوب میں ہندو مذہب کے لوگ صدیوں سے آباد ہیں تاہم پاکستان بننے کے بعد ان میں سے بیشتر نقل مکانی کرکے ہندوستان منتقل ہوگئے۔ چند گھرانے ژوب میں ہی رہ گئے۔
اب چالیس سے پچاس ہندو گھرانے یہاں رہتے ہیں۔ ان کے پاس غریب آباد محلے میں صرف ایک کچا مندر ہے جس کی چھت بھی کسی وقت گر سکتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ 1928ءکے سرکاری نقشوں کے مطابق ژو ب میں اس وقت چھ سے زائد مندر فعال تھے جن میں سے بیشتر پر قیام پاکستان کے بعد قبضے ہوگئے۔ 
ژوب کے قندہاری بازار کے قریب ایک مندر میں مدرسہ بن گیا۔ پولیس لائن میں واقع مندر میں پولیس کا دفتر قائم ہے۔ تھانہ روڈ پر واقع مندر پر سرکاری بینک بن گیا۔ آریا سماج والے مندر پر بھی کسی نے قبضہ کیا ہے۔ یہ زمینیں قیام پاکستان کے بعد اوقاف کی تحویل میں ہونی چاہیے تھیں مگر لوگوں نے اس پر قبضے کرلیے۔

سلیم جان کے مطابق آج جو مندر ہمارے حوالے ہوا اس کی عمارت میں30 سال قبل سرکاری پرائمری سکول قائم کیا گیا تھا اور اس میں پانچ سو سے چھ سو بچے پڑھ رہے تھے۔ مندر میں صرف چار کمرے تھے اتنے زیادہ بچوں کیلئے یہ جگہ بہت تنگ تھی۔ ہمیں خوشی ہے کہ بچوں کو پڑھنے کیلئے اب بہتر جگہ مل گئی ہے۔ 
اقلیتی رہنماءنے بتایا کہ ہندو برادری کے پاس شمشان گھاٹ کی بھی جگہ نہیں۔شمشان گھاٹ پر ہائی سکول بنا ہوا ہے۔ ہم نے چیف جسٹس سے درخواست کی ہے کہ سکول کو یہیں رہنے دیا جائے ، ہمیں شمشان گھاٹ کیلئے علیحدہ جگہ دی جائے۔

سلیم جان کا کہنا ہے کہ ژوب میں ہندو برادری کے پاس غریب آباد محلے میں 100 سالہ قدیم ایک کچا مندر ہے اس کی چھت بھی گرنے والی ہے۔ جو مندر حوالے کیا گیا ہے اس کی عمارت بھی خستہ حال ہے ،اس کی مورتیاں توڑ دی گئیں یا پھر غائب کردی گئیں۔ شہر کی سیوریج کا گندا پانی بھی مندر کے صحن میں آتا ہے۔ حکومت اس مندر کی عمارت کو بحال کرنے کیلئے فنڈز فراہم کرے۔
اقلیتی رہنماء کے مطابق اس مندر کے قریب ہی سکھ برادری کے گورد وارے پر بھی قبضہ ہے اور اس میں سکول قائم ہے۔ ژوب میں چند سکھ گھرانے رہتے ہیں مگر ان کی کوئی عبادتگاہ نہیں۔ انتظامیہ نے اس گوردوارے کی عمارت کو خالی کرانے اور سکول کو دوسری جگہ منتقل کرانے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ 
جے یو آئی کے رہنماءجامع مسجد ژوب کے خطیب مولانا اللہ داد کاکڑ اور تقریب میں شریک اے این پی ، پشتونخوامیپ ، تحریک انصاف اور دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنماوں نے مندر کو ہندو برادری کو حوالے کرنے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ اسلام میں اقلیتوں کے بڑے حقوق ہیں ، ان کی جان و مال کی حفاظت اور مذہبی آزادی کے احترام کا درس دیا گیا ہے۔ 
ژوب قبائلی علاقہ ہے اور یہاں قبائلی روایات کے مطابق ہمیشہ اقلیتی برادری کی عزت ، جان و مال کا خیال رکھا گیا ہے، ہم ہمیشہ ایک دوسرے کے غم و خوشی میں شریک رہے ہیں۔ 

شیئر: