Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

 فلسطینیوں کی زرعی برآمد پر پابندی کیوں؟ 

پابندی کا مقصد فلسطینی عوام کی ناکہ بندی کو مزید سخت کرنا ہے۔ فوٹو الشرق الاوسط
اسرائیل نے مویشی پالنے والے اسرائیلیوں کے بائیکاٹ کے جواب میں فلسطینیوں کی زرعی پیداوار برآمدکرنے پر پابندی لگادی ہے۔
فلسطینی حکومت نے اسرائیلیوں کے بائیکاٹ کا فیصلہ ستمبر 2019 میں یہ کہہ کر کیا تھا کہ یہ قابض حکام سے اقتصادی تعلقات ختم کرنے کی جہت میں پہلا قدم ہے۔ 

فلسطینیو ں کی زرعی پیداوار پر پابندی کا فیصلہ خطرناک ہے۔ فوٹو عرب نیوز

الشرق الاوسط کے مطابق مقبوضہ غرب اردن کے قریے ’الجفتلک‘ میں فلسطینی کاشتکار معین اشتیہ کی چار سو ٹن کھجوریں اردن کے راستے فلسطینی زرعی پیداوار کی برآمدات پر اسرائیلی پابندی کی وجہ سے خراب ہونے لگی ہیں۔ 
اسرائیل نے اتوار کو اعلان کیا ’ آئندہ فلسطینی زرعی مصنوعات غرب اردن کے راستے برآمد کرنے کی اجازت نہیں ہوگی‘۔
فلسطینی کاشتکار اشتیہ نے اسرائیلی پابندی کو تباہ کن قرار دیتے ہوئے کہا ’ پابندی تقریباً30لاکھ ڈالر کا نقصان ہوگا۔ کھجوریں ترکی، جرمنی اور برطانیہ بھیجی جانی تھیں‘۔
فلسطینی شہری اسرائیل کے زیر قبضہ اللنبی پل کو اپنی زرعی پیداوار برآمد کرنے کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں۔ بعض فلسطینی شمالی اسرائیل کی اشدود بندرگاہ کے راستے بھی زرعی پیداوار برآمد کرتے ہیں۔
فلسطینیوں نے 2018 کے دوران اسرائیلی مارکیٹ کو 88ملین ڈالر کی زرعی پیداوار فراہم کی۔ فلسطینی اسرائیل سے ایک لاکھ20ہزار بچھڑے درآمد کرتے ہیں۔ ان سے 30ملین ٹن گوشت حاصل کیا جاتا ہے۔
فلسطینی کاشت کار کے مطابق’ اسرائیلی پابندی نے یورپی ممالک کو برآمد کی جانے والی فلسطینی زرعی پیداوار کے آگے پل باندھ دیا ہے۔ اس طرح پندرہ برس کی محنت ضائع ہوجائے گی‘۔
فلسطینی وزیر زراعت ریاض العطاری نے کہا ’ اسرائیل کی جانب سے فلسطینیو ں کی زرعی پیداوار پر پابندی کا فیصلہ خطرناک ہے۔ یہ فیصلہ سیاسی ہے‘۔
 ’اس کا مقصد فلسطینی عوام کی ناکہ بندی کو مزید سخت کرنا ہے۔ اس سے زراعت کا شعبہ زیادہ متاثر ہوگا اورہمیں نئے جوابی اقدامات کرنا ہوں گے‘۔                                       
 
خود کو اپ ڈیٹ رکھیں، واٹس ایپ گروپ جوائن کریں

شیئر: