Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

احسن اقبال اور شاہد خاقان کی ضمانت کی درخواستیں منظور

شاہد خاقان کی ضمانت ایک کروڑ روپے کے مچلکوں کے عوض منظور ہوئی (فوٹو: سوشل میڈیا)
اسلام آباد ہائیکورٹ نے مسلم لیگ ن کے رہنماؤں احسن اقبال اور شاہد خاقان عباسی کی دو مختلف مقدمات میں ضمانت کی درخواستیں منظور کر لی ہیں۔
منگل کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں ڈویژن بینچ نے احسن اقبال کی ضمانت کی درخواست پر قومی احتساب بیورو نیب کے پراسیکیوٹر جہانزیب بھروانہ کے دلائل مکمل ہونے کے بعد مختصر فیصلے میں ن لیگی رہنما کو ایک کروڑ روپے ضمانتی مچلکوں کے عوض رہا کرنے کا حکم جاری کیا۔
اردو نیوز کے نامہ نگار زبیر علی خان کے مطابق سابق وفاقی وزیر احسن اقبال کی درخواست کی سماعت کے دوران چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے نیب پراسیکیوٹر سے احسن اقبال کو گرفتار کرنے کی وجوہات پوچھتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے صغریٰ بی بی کیس میں کسی بھی شخص کی گرفتاری سے متعلق ہدایات جاری کی تھیں۔
مزید پڑھیں
 سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ کسی شخص کو بھی ٹھوس وجوہات کے بغیر گرفتار نہیں کیا جانا چاہیے، ایک شخص آپ کے سوال نامے کے جوابات دے رہا ہے اور آپ کے سامنے پیش ہو رہا ہے تو گرفتار کیوں کیا گیا؟ جب کوئی شخص گرفتار کیا جاتا ہے تو اس کی عزتِ نفس مجروح ہوتی ہے، نیب ہمیں ان سوالات پر مطمئن کرے۔
 
نیب پراسیکیوٹر نے اپنے دلائل میں آئین کے آرٹیکل 9 کی تشریح کرتے ہوئے کہا کسی بھی شہری کی آزادی کو سلب نہیں کیا جاسکتا جب تک قانون کی خلاف ورزی نہ کی جائی۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ’آپ آرٹیکل 14 بھی پڑھیں جو عزتِ نفس مجروح کرنے کے حوالے سے ہے۔‘
پراسیکیوٹر نیب نے کہا کہ ’کسی شخص کی عزت نفس تب مجروح ہوتی ہے جب اس پر تشدد کیا جائے، نیب کسی گرفتار شخص پر تشدد کرتا ہے نہ ہی قانون اس کی اجازت دیتا ہے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ’بہت سے مقدمات میں نیب گرفتار کیے بغیر ہی ریفرنس دائر کر دیتا ہے۔ نیب نے کتنے عوامی عہدے رکھنے والے افراد کو گرفتار کیا ہے جن پر الزامات ہیں؟‘

چیف جسٹس نے کہا کہ نیب گرفتار کیے بغیر ہی ریفرنس دائر کر دیتا ہے (فائل فوٹو)

’آپ کسی شخص کو گرفتار کرنے کے اختیار کو استعمال نہیں کر سکتے جس سے کسی کی عزت نفس مجروح ہو۔ ‘
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ ’نیب گرفتاری کے بعد وعدہ معاف گواہ بنانے کا اختیار رکھتا ہے اور عزتِ نفس مجروح ہونے سے بچنے کے لیے لوگ وعدہ معاف گواہ بن جاتے ہیں۔‘
پراسیکیوٹر نیب نے عدالت کو بتایا کہ ’کسی بھی ملزم کو گرفتار کرنے کے تمام قانونی تقاضے پورے کیے جاتے ہیں۔‘
عدالت نے کہا کہ جتنا ’نیب کے پاس اختیار زیادہ ہوگا عدالت کے پاس اس کا جائزہ لینے کا دائرہ کار بھی وسیع ہوگا۔ ’
چیف جسٹس نے برطانوی دارالعمرا کے ایک فیصلے کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’ہاؤس آف لارڈز نے 12 شرائط کے ساتھ دہشت گردی کے ملزم کو بھی ضمانت دی، تفتیشی افسر روز کسی کو سوال کرنے کے لیے طلب کر سکتا ہے، کسی کو گرفتار کرنا ہی کیوں ضروری ہوتا ہے؟

عدالت نے نیب سے پوچھا کہ بتائیں احسن اقبال کو ضمانت کیوں نہ دی جائے؟ (فائل فوٹو)

شاہد خاقان عباسی اور احسن اقبال ایک ایک حلقے کے نمائندے بھی ہیں۔ ’شاہد خاقان اور احسن اقبال ابھی عوامی نمائندگی کے لیے نااہل نہیں ہوئے یا تو آپ ترمیم کروا لیں کہ گرفتار شخص عوامی عہدہ نہیں رکھ سکتا، جرم ثابت کیے بغیر دونوں کو قید رکھنا حلقے کے ووٹرز کو نمائندگی سے محروم رکھنا بھی ہے۔‘
نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ ’کسی کے قابل گرفت جرم سے متعلق ٹھوس شواہد موجود ہوں تو گرفتاری ہو سکتی ہے، قانون اس کی اجازت دیتا ہے۔‘
پراسیکیوٹر نیب نے عدالت کو احسن اقبال کی گرفتاری کی وجوہات بتاتے ہوئے کہا کہ ’ہمارے پاس دستاویزات ہیں جس کے مطابق احسن اقبال نے نارووال سپورٹس سٹی کے لیے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا اور بدنیتی کے تحت متعلقہ اتھارٹی کی منظوری کے بغیر صوبائی حکومت کے منصوبے پر وفاقی حکومت کا فنڈ استعمال کیا۔‘
عدالت نے کہا کہ کیا آپ کے پاس کوئی شواہد موجود ہیں جس سے احسن اقبال نے ذاتی مالی فوائد حاصل کیے ہوں۔

عدالت کا کہنا تھا کہ شاہد خاقان ابھی عوامی نمائندگی کے لیے نااہل نہیں ہوئے (فوٹو: ٹوئٹر)

’آپ خود کہہ رہے ہیں کہ آپ کے پاس دستاویزات ہیں تو پھر احسن اقبال کس طرح دستاویزات کو ضائع کر سکتے ہیں؟ ‘
عدالت نے نیب پراسیکیوٹر سے پوچھا کہ بتائیں احسن اقبال کو ضمانت کیوں نہ دی جائے؟
نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ ’ان کے خلاف تفتیش چل رہی ہے ضمانت پر رہا نہیں کیا جا سکتا وہ باہر آکر ملک سے فرار اور ریکارڈ ضائع کر سکتے ہیں۔‘
عدالت نے کہا کہ ’نیب کے تفتیشی افسر  کے لیے بھی روز اڈیالہ جیل جانا مشکل ہے۔ اگر فرار ہونے کا خدشہ ہے تو نام ای سی ایل میں ڈال دیں۔‘
نیب پراسیکیوٹر نے عدالت سے پاسپورٹ جمع کروانے کی شرط عائد کرنے کی استدعا کی، عدالت نے ضمانت کی درخواست منظور کرتے ہوئے کہا کہ ’نیب کے تفتیشی افسر کے پاس اختیار ہے کہ وہ ملزم کے سامنے پاسپورٹ سمیت کوئی بھی شرط رکھ سکتا ہے۔
بعد ازاں بینچ نے مختصر وقفے کے بعد سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی ضمانت کی درخواست پر سماعت کی۔
  • واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں

شیئر:

متعلقہ خبریں