Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’من کی آنکھیں کبھی نہ سوتی ہیں‘

گٹر کے پاس سے گزرتے ہوئے استاد نے جو کہا وہ بہت بعد میں سمجھ آیا (فوٹو سوشل میڈیا)
یہ کوئی دس سال قبل کا واقعہ ہے۔ اک روز اپنے استاد جی کے ساتھ کہیں جا رہے تھے۔ کراچی کے ایک علاقے کی تنگ گلیوں سے ہوتے ہوئے ہم اپنی منزلِ مقصود کی جانب رواں دواں تھے کہ سامنے اک گلی میں گٹر کا پانی ابل ابل کر راہ روکنے لگا۔
بہرحال جیسے تیسے اسے پار کر کے آگے بڑھے تو استاد جی بائیں جانب مڑ گئے جب کہ جانا ہمیں دائیں جانب تھا۔ اس سے قبل کے آواز دے کر متوجہ کرتا، اُنہوں نے پلٹ کر دیکھا اور سامنے پڑے بلاک نما پتھر اٹھانے کو کہا اور خود ایک لمبا سا لکڑی کا ٹکڑا اٹھا لیا۔
’ چلو جنگیرے پتر ، گلی میں فاصلے فاصلے سے یہ پتھر رکھتے جاؤ‘

کچھ نابینا لوگ آنکھوں والوں سے بھی زیادہ بینائی رکھتے ہیں (فوٹو اے ایف پی)

یہ کہہ کر بنا میرا جواب سنے استاد جی اسی گلی میں سوکھی جگہوں پہ پیر رکھتے ہوئے گٹر تک آئے اور اُس میں وہ لمبی سی لکڑی گاڑ دی۔ اب یہاں اس عمل کی منطق جاننا متوقع ڈانٹ کی صورت ہی سامنے آتا لہٰذا چپ چاپ بلاک اُٹھا کر گندے پانی کے بیچ رکھتا گیا یہاں تک کہ ان پتھروں سے خُشک گزرگاہ بن گئی۔
ہاتھ جھاڑ کر کر واپس جاتے ہوئے اپنے استاد جی کی سادگی پہ افسوس و ملال کرتے ہوئے اُنہیں آگاہ کیا کہ استاد جی ہم تو یہاں سے گزر چکے تھے، واپس دوسرے راستے سے آجاتے۔ وہ تو ہوتا بھی صاف، ایسے ہی تھکن اٹھائی۔
استاد جی نے میری لمبی گھنی زلفوں سے اپنے ہاتھ جھاڑتے ہوئے مسکرا کر جواب دیا ’شیر بچے ہم دن کی روشنی میں تھے، جسم میں چھلانگ لگانے کی طاقت بھی تھی، لہٰذا راستہ پار کر لیا۔ اگر کوئی رات کے اندھیرے میں یہاں آیا تو خشک زمین کیسے دیکھے گا؟ اگر کوئی خاتون یا بزرگ دِن کی روشنی میں بھی آئے تو وہ کیسے اس راہ کو پار کریں گے؟ ابھی تو ہم نے گٹر میں لکڑی گاڑ کر واضح کردیا کہ یہاں گٹر ہے ورنہ کوئی اس میں گر سکتا تھا۔‘
سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا ’اللہ نے بینائی اسی لیے دی ہے کہ جو مشکلات آپ دیکھ لو ،کوشش کرو کہ دوسروں کو وہ مشکلات نہ دیکھنی پڑیں۔‘
اس وقت شاید ابتدائے جوانی کا تقاضہ تھا کہ ایسی گہری بات بغور نہ سمجھی جائے لہٰذا منڈی ہلا کر استاد جی کی بات سے اتفاق تو کیا پر دل میں پھر بھی یہی کہا کہ خواری تو ہو گئی ناں؟

جو مشکل ہم نے اٹھائی دوسروں کو ان سے بچایا جا سکتا ہے (فوٹو اے ایف پی)

خیر ابھی کل یوٹیوب پہ ایک مارننگ شو کا کلپ نظر سے گزرا جہاں تصویر میں موجود دو بہنوں کا ذکر تھا جو اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ اس میں کیا کمال کی بات ہے؟ پاکستان میں تو عموماً لڑکیاں ہی اعلیٰ تعلیم حاصل کرتی ہیں اس لیے تجسس کے مارے ویڈیو چلا لی کہ یہ کون سی بہنیں ہیں جن کا ماسٹرز یا ایم فل  کرنا اتنا باعث تعجب بنا ہوا ہے؟
کلپ کے شروع میں ہی معلوم ہوا کہ یہ دونوں بہنیں نابینا ہیں۔ ایک کا نام ایمن ظہیر جب کہ دوسری کا نام حبہ ظہیر بتایا گیا۔ ان کا انٹرویو دیکھتے ہوئے جانا کہ انہیں اعلیٰ تعلیم کے حصول میں بہت دشواریاں پیش آئیں۔ خصوصی بچوں کے لیے جو سہولیات ہوتی ہیں وہ نہ ہونے کے باعث تعلیم حاصل کرنا بہت کٹھن سفر تھا، لہٰذا تعلیم مکمل کرنے کے بعد ان کا مقصد یہی ہوگا کہ کچھ ایسا کریں کہ جو پریشانیاں اہوں نے اٹھائیں، کسی اور کو نہ اٹھانا پڑیں۔
یہ سنتے ہی دماغ وہیں اسی سفر پہ جا اٹکا جہاں استاد جی نے بتایا تھا کہ بینائی کا مقصد ہی یہی ہے۔

استاد کا کہنا تھا کہ خواتین اور بچے اس سے متاثر ہو سکتے ہیں (فوٹو سوشل میڈیا)

اب تک تو میں لکھائی سے لے کر کسی بھی کاروبار وغیرہ میں بظاھر ’پڑھے لکھے کامیاب‘ لوگوں سے یہی جملہ سنتا آیا تھا ’ارے میاں ہم نے بھی بہت ٹھوکریں کھائی ہیں، تم بھی جب تک ٹھوکریں نہیں کھاؤ گے سیکھو گے نہیں‘۔
 مگر آج ان دو نابینا بہنوں کے ایک جملے ’جو تکلیف ہم نے اٹھائی وہ کسی اور کو نہ اٹھانی پڑے‘ کے سامنے یہ سب کامیاب لوگ بہت ہی چھوٹے اور اندھے دکھائی دیے۔ یہ دونوں بہنیں شاید دنیا والوں کے لیے نابینا ہوں گی مگر حقیقت میں یہ لاکھوں کروڑوں ایسے بینا لوگوں سے زیادہ بینائی رکھتی ہیں جو خیر دیکھ نہیں سکتے خیر پیدا نہیں کر سکتے۔ سادہ سی تو بات ہے کہ اگر آپ کو مشکلات اٹھانا پڑی ہیں تو وہ دوسرے کیوں اٹھائیں؟ اگر آپ کے بس میں ہے کہ آپ دوسروں کی بہتر رہنمائی کر کے اُنہیں اُس تکلیف سے بچا سکتے ہیں تو کیوں نہ بچایا جائے؟ 
نابینا شاعر و موسیقار رویندن جین کیا خوب کہہ گئے ہیں
تن کی آنکھیں تو دو ہی ہوتی ہیں
من کی آنکھیں ہزار ہوتی ہیں
تن کی آنکھیں تو سو ہی جاتی ہیں
من کی آنکھیں کبھی نہ سوتی ہیں

کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیے ’’اردو نیوز کالمز‘‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: