Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’کینڈیڈیٹ‘ کردار کا اُجلا کیوں کہلاتا تھا؟

زمانہ قدیم میں مسافروں کی رہنمائی کے لیے کسی بلند مقام پر آگ روشن کردی جاتی تھی۔ فوٹو: پکسا بے
گمان آباد ہستی میں یقیں مردِ مسلماں کا
بیاباں کی شبِ تاریک میں قِندیلِ رہبانی
شعرعلامہ اقبال کا ہے۔ جس میں بے یقینی کے اندھیرے میں مردِ مسلمان کے یقینِ کامل کو’روشنی‘ سے تشبیہ دی گئی ہے۔ روشنی بھی اُس ’قندیل‘ کی جو درویش جنگل وبیاباں کی سیاہ راتوں میں اس لیے جلا رکھتا ہے کہ بھٹکے ہوئے مسافرراہ پاسکیں۔
زمانہ قدیم میں دستور تھا کہ رات کے وقت سفر کرنے والے مسافروں اور کاروانوں کی رہنمائی کے لیے کسی بلند مقام پر آگ روشن کر دی جاتی تھی۔
گزشتہ بلاگ میں ہم اس جانب اشارہ کر آئے ہیں کہ اس طرح کے مقام کو ’منارہ‘ کہتے ہیں جولفظ ’نار‘ سے مشتق (نکلا) ہے۔
قدیم عربی لٹریچر میں شاعروں نے لوگوں کی ضیافت اور رہنمائی کے لیے روشن کی جانے والی آگ کا ذکر فخر سے کیا ہے۔
رات کے وقت روشن کی جانے والی آگ کے پس منظر کے بعد موضوع پرآتے ہیں۔ اقبال کے شعر میں لفظ ’قِندیل‘ آیا ہے۔ ’قندیل‘ ایک ’مُعَرَّب‘ لفظ ہے۔ کسی بھی دوسری زبان کے ایسے الفاظ جنہیں عربی زبان نے اپنا لیا ہے ’مُعَرَّب‘ کہلاتے ہیں۔ مثلاً ہندی کا ’چترنگ‘ عربی میں ’شطرنج‘ ہے یا فارسی زبان کا ’تشت‘ عربی میں ’طست‘ ہے۔’مُعَرَّب‘ ہی کی طرح فارسی زبان میں داخل ہونے والے الفاظ ’مُفَرَّس‘، اردو میں ’مُوَرَّد‘ اور ہندی میں ’مُہَنَّد‘ کہلاتے ہیں۔
عربی اور اس کی رعایت سے اردو میں ’قِندیل‘ شیشے کے بنے اُس ظرف کو کہتے ہیں جس میں شمع یا چراغ جلا کر رکھتے ہیں۔ قندیل زنجیر کی مدد سے چھت سے بھی لٹکائی جاتی ہے۔ مطلق ’شمع‘ اور’چراغ‘ کو بھی قندیل کہتے ہیں۔ جنوبی ہند (دکن/انڈیا) میں ’قندیل‘ کا لفظ ’لالٹین‘ کے لیے عام استعمال ہوتا ہے۔
 پھر ایسا روشندان بھی ’قندیل‘ کہلاتا ہے جو چھت سے کسی قدرے اٹھا ہوا ہو اوراس میں روشنی کے لیے شیشے کا چوکھٹا لگا ہو۔ لالٹین اور روشن دان کو ’قندیل‘ کہنے کی وجہ ’روشنی‘ ہے جو اِن میں مشترک وصف ہے۔ روشنی ہی کی رعایت سے سورج، چاند اور ستاروں کو بھی ’قندیل‘ کہتے ہیں۔ ’قندیلِ عرش‘اور’قندیلِ فلک‘ کی تراکیب اسی جانب اشارہ کرتی ہیں۔ بقولِ شاعر:
قندیلیں سرشام سے روشن ہیں فلک پر 
یا گنبدِ گردوں پہ چراغاں کا ہے منظر
اگر ’قندیل‘عربی نہیں تو کس زبان کا لفظ ہے؟ ماہرلسانیات کے مطابق ’قندیل‘ کی اصل ’کینڈلا (candela)‘ ہے،جو لاطینی میں’روشنی اور مشعل‘ کوکہتے ہیں۔
ابتدائی کلیسیائی دور میں لفظ ’کینڈلا(candela)‘ قدیم انگریزی زبان میں کینڈل (candle) کی صورت میں داخل ہوا، جہاں اس کے معنی ’چراغ، لالٹین اورشمع‘ تھے، تاہم بعد میں یہ معنی ’شمع یا موم بتی‘ تک محدود ہوگئے۔ 
عربی میں ’قندیل‘ اور انگریزی میں ’کینڈل‘ بن جانے والا کینڈلا لہجے کے فرق کے ساتھ دیگر زبانوں میں بھی موجود ہے۔ مثلاً یہ لفظ فرانسیسی زبان میں chandelle، آئرش میں coinneal، ولش یا ولزی میں canwyll، باسکی میں kandela کی صورت میں جگمگا رہا ہے۔ اس سے پہلے کہ سلسلہ کلام آگے بڑھے شمع کی رعایت سے شیخ ابراہیم ذوق کا خوبصورت شعر ملاحظہ کریں:
اے شمع تیری عمر طبیعی ہے ایک رات 
ہنس کر گزار یا اسے رو کر گزار دے 

لاطینی رسم الخط میں بیشتر موقعوں پر ’k‘ اور’c‘ ایک دوسرے کے قائم مقام ہوتے ہیں (فوٹو: سوشل میڈیا)

یہاں یہ بات پیش نظر رہے کہ لاطینی رسم الخط میں بیشتر موقعوں پر ’k‘ اور’c‘ ایک دوسرے کے قائم مقام ہوتے ہیں۔ اسے اوپر بیان کردہ انگریزی candle اورباسکی kandela میں دیکھ  سکتے ہیں۔
ماہرین لسانیات candle کی جڑ (root)ابتدائی ہند یوروپی زبان کا لفظ ’کاند (kand)‘ بتاتے ہیں۔ انگریزی زبان میں لفظ ’cand‘ جن الفاظ کا جُز ہے ان میں سے اکثر میں بالواسطہ یا بلاواسطہ ’سفیدی،روشنی، چمک دمک، شفافیت اور آگ‘ کا تصورپایا جاتا ہے،مثلاً Candle (شمع) ہی کو دیکھ لیں اس کے ساتھ روشنی وابستہ ہے۔ chandelier (فانوس) جگمگاہٹ لیے ہوئے ہے۔ incendiary کا مطلب ’آگ لگانے والا، آتش زن، آتش گیراورآتشیں‘ہے۔
پھر ایک لفظ candid ہے جو مجازاً ’صاف دل اور صاف گو‘ کوکہتے ہیں۔ incandescent کے معنی میں’روشَن، روشنی، سَفِيد،چَمکيلا ،جَلتا اوردہکتا ہوا‘ شامل ہیں۔
اس سلسلے کا سب سے دلچسپ لفظ candidate ہے۔ اردو میں اس کا ترجمہ ’امیدوار‘ ہے۔ تاہم اس لفظ پرغور کریں تو یہ بھی زیر بحث معنی سے جُڑ جاتا ہے۔ قدیم شخصی حکومتیں ہوں یا آج کی جدید ریاستیں، کوشش یہی رہی ہے کہ حکام  بدعنوان نہ ہوں۔ چنانچہ ابتدائی یونانی جمہوریتوں میں عوامی عہدے (Public Office) کے خواہشمند کے لیے لازم تھا کہ وہ کردار کا ’اُجلا‘ ہو، پاکستانی دستوری زبان میں اسے ’صادق اورامین‘ کہہ لیں، یوں اس شرط پر پورا اترنے والے کو candidate (کردار کا اُجلا) کہا گیا۔ بعد میں لفظ candidate کے معنی میں وسعت پیدا ہوگئی۔ یوں ہرطرح کے امیدوار ’candidate‘ کی تعریف میں داخل ہوگئے۔

روشنی کی رعایت سے سورج، چاند اور ستاروں کو بھی ’قندیل‘ کہتے ہیں (فوٹو: پکسابے)

ہندی یوروپی زبانوں کے گروہ میں سنسکرت کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ اسی لیے اسے ’کُل زبانوں کی ماں‘ بھی کہا جاتا ہے۔ ایسے میں ناممکن تھا کہ سنسکرت میں ’cand/kand‘ بمعنی روشنی اور چمک موجود نہ ہو۔
لمحہ بھر کو صوتی تبادل کے اس اصول پر غور کریں جس کے مطابق ’کاف‘ حرف ’چے‘ سے بدل جاتا ہے،آپ کو ’کاند‘ میں ’چاند‘ جگمگاتا دکھائی دے گا۔
سنسکرت میں ’چاند‘ کو ’کاندرا(चन्द्र)‘ کہتے ہیں، اور یہ چاند کا صفاتی نام ہے۔ ذرا سا غور کرنے پر ہی معلوم ہوجاتا ہے کہ سنسکرت کا candra لاطینی کے candela کا بچھڑا بھائی ہے، جن کے درمیان ’رے‘ اور ’لام‘ کی تبدیلی حائل ہے۔ سنسکرت کا ’کاندرا‘ ہندی میں ’چندر‘ ہے۔
اسی سے ہندی ترکیب ’چندرمکھی (چاند چہرہ)‘ ہے۔ واضح رہے کہ ’را‘ کی آوازبطورلاحقہ سنسکرت اور اس کی رعایت سے ہندی کے بیشتر ناموں اور صفات میں سنی جا سکتی ہے۔ پھر یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ اس ’را‘ میں ’الف‘ آدھی آواز دیتا ہے۔ یہ آدھی آواز اردو و فارسی سمیت دنیا کی بہت سی زبانوں میں ادا نہیں کی جاسکتی۔

Narendra  اور Dharmendra کو بالترتیب ’نریندر‘ اور ’دھرمندر‘ لکھتے اور بولتے ہیں (فوٹو: وکی پیڈیا)

یہی وجہ ہے کہ اردو میں ہم اس ’الف‘ کو یا تو مکمل ادا کرتے ہیں یا بالکل ادا نہیں کرتے، مثلاً Indira اور Birendra کو بالترتیب ’اندرا‘ اور ’برندرا‘ جبکہ Narendra  اور Dharmendra کو بالترتیب ’نریندر‘اور’دھرمندر‘ لکھتے اور بولتے ہیں۔
ظاہر ہے کہ اس کی وجہ اردو میں ’الف‘ کی آدھی آوازکا نہ ہونا ہے۔ چوں کہ گفتگو بہت سنجیدہ ہوگئی ہے اس لیے چاند پر افتخار نسیم کا خوبصورت شعر ملاحظہ کریں اور ہمیں رخصت دیں:
اس کے چہرے کی چمک کے سامنے سادہ لگا 
آسماں پہ چاند پورا تھا مگر آدھا لگا

شیئر: