Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کورونا دنیا کے لیے ایک امتحان

عام طور پر آفات اپنا نہیں دوسروں کا مسئلہ ہوتی ہیں۔(فوٹو سوشل میڈیا)
عام طور پر آفات اپنا نہیں دوسروں کا مسئلہ ہوتی ہیں۔ اس پر محض ہمدردی کا اظہارکیا جاتا ہے یا لاتعلقی اختیار کرلی جاتی ہے۔
کورونا وائرس مختلف قسم کی وبا ہے اگرچہ یہ نہ تو اب تک منظر عام پر آنے والی وبا میں سب سے خطرناک ہے اور نہ بھیانک البتہ حقیقت یہ ہے کہ تیزی سے پھیلنے وبا کو خوفناک حدتک خبروں کے پھیلاﺅ نے اسے اورہیبت ناک بنا دیا ہے۔ اب بھی یہ ایک معمہ ہے۔
کورونا کی وباتمام براعظموں ، سما جی طبقات ،شہروں ،دیہات، مالداروں اور غریبوں سب کے لیے برابر کا خطرہ ہے۔

 یقینی طور پردنیا پر چھائی ہوئی یہ آفت ایک دن ختم ہوجائے گی(فوٹوسوشل میڈیا)

 یقینی طور پردنیا پر چھائی ہوئی یہ آفت ایک دن ختم ہوجائے گی لیکن کب؟ ۔یہ کوئی نہیں جانتا ہوسکتا ہے کہ موسم گرما سے پہلے یہ ختم ہوجائے ۔ممکن ہے آئندہ موسم سرما تک اس کا خطرہ منڈلاتا رہے یا مستقل بنیادوں پر ڈیرے ڈال لے۔
آزمائش کے اس لمحے میں اقوام عالم کو یہ احساس ہوچکا ہے کہ انہیں ایکدوسرے کی کتنی ضرورت ہے ۔ اس کے باجوو کہ امریکہ اور چین کے درمیان اختلافات، ایکدوسرے پر الزامات ، ایرانی ر جیم اور اس کے پیرو کاروں کے سا تھ عداوت اور کرہ ارض پر ہرطرح کے انتقام کے باوجود کورونا کی وبا ایک ایسی دشمن بن گئی جس نے دنیا کو عارضی طور پر سہی ایک کردیا ہے۔
 یہ نیا دشمن ’ووہان ‘سے نکل کر پوری دنیا میں پھیل گیا ۔ممکن ہے چین سے پہلے اس کی شروعات کسی اور ملک میں ہوئی ہو مگر اب دنیا کو اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ اس کا وطن کیا ہے ۔ سب کو اس پر قاو پانے سے دلچسپی ہے۔ ہر ایک چاہتا ہے کہ معمول کی زندگی لوٹ آئے یا جنوری سے پہلے ہم جس زندگی کو فطری سمجھ ر ہے تھے وہ بحال ہو جائے۔

۔ہماری آرزو ہے کہ سب اس مرض سے محفوظ رہیں ۔(فوٹو اے ایف پی)

دیگر تمام جنگوں کی طرح کورونا کی جنگ میں بھی لوگ مر رہے ہیں اور اس کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔ امید ہے کہ دنیا والے اس مرتبہ اس سے ایک مختلف سبق سیکھیں ۔ دنیا سے تنازعات اور جنگیں ختم ہو جائیں ۔بس اتناچاہتے ہیں کہ دنیا بھر کے انسانوں کے مشترکہ مسائل اور کرہ ارض کی سلامتی کے لیے سب ایک دوسرے سے تعاون کرنے لگیں۔
ہمیں یہ بات بھی ذہن نشین ر کھنی چاہیے کہ کئی بیماریاں ایسی ہیں کہ کوئی ان کے علاج میں دلچسپی نہیں لیتا ۔ ملیریا اس کی ایک مثال ہے۔ یہ دنیا کے غریب معاشروں کو اپنے شکنجے میں جکڑے ہوئے ہے ۔ ملیریا کا کوئی علاج اس لیے دریافت نہیں کیا گیا کہ کیونکہ اس میں میڈیکل انشورنس کمپنیوں کی کوئی دلچسپی نہیں ۔ ملیریا مچھر سے پھیلتا ہے اور یہ مچھر اڑ کر سمندر پار نہیں کرتا۔
حقیقت اس سے کہیں زیادہ تلخ ہے ۔ امریکی کانگریس کے رکن کیون میکارتھی نے کچھ برس قبل اپنے بیان میں کہا تھا کہ دنیا میں دس ہزار بیماریاں پائی جاتی ہیں اور ہمارے پاس صرف پانچ سو کی میڈیسن مہیا ہیں ۔ کانگریس کے ایک اور رکن نے اسے مبالغہ آ میزبیان قرار دیا تھا ۔ بعد میں تحقیق سے پتہ چلا کہ نو ہزار235 بیماریاں ایسی ہیں جن کا کوئی علاج دریافت نہیں کیا گیا ۔ تمام بیماریوں میں سے ہر ایک بیماری ایسی ہے جو فی دس ہزار میں سے چھ افراد کو لگتی ہے۔

تحقیق سے پتہ چلا کہ نو ہزار235 بیماریاں ایسی ہیں(فوٹو اے ایف پی)

 لگتا ہے ان بیماریوں کے علاج کے تناظر میں پیش رفت سست ہے لیکن انسانی تاریخ میں ماضی کے حوالے سے ریکارڈ کامیابیاں حاصل کی گئی ہیں ۔1990میں انسانی جین کا پتہ لگایا گیا اس پر کام شروع کیا گیا ۔ایک عشرے بعد نئے ہزارے کے شروع میں اسے باقاعدہ ریکارڈ پر لایا گیا ۔ اس کے باوجود انسانی امراض اور ان کے علاج پر کا م ابھی تک ابتدائی مرحلے میں ہے۔
میں نے طویل سفر سے واپسی پر اپنے شک کو دور کرنے کے لیے رضاکارانہ طور پر کورونا ٹیسٹ کرایا تھا ۔ اسی ہفتے مجھے اس کا رزلٹ ملا ہے اور یہ منفی آیاہے ۔ میں نے ٹیسٹ محض اپنی ذہنی حالت سے متاثر ہو کر کرایا تھا۔ میں جانتا ہوں کہ فی الوقت کورونا کا کوئی علاج نہیں اور یہ ٹیسٹ کسی کو یہ وائرس لگنے سے نہیں بچاتا اور نہ ہی ٹیسٹ کا نتیجہ آپ کوخود کو گھر میں بند کرنے کی ذمہ داری سے استثنی دیتا ہے۔

کورونا  ٹیسٹ کی سہولت سے متاثرین کو الگ تھلگ کرنے کا راستہ ہموار ہو جائے گا۔(فوٹو اے پی)

کوروناٹیسٹ معاشرے کو متاثرہ افراد کو بچانے کا ایک طریقہ ہے ۔ اگر کورونا وائرس کے ٹیسٹ کی سہولت سب کو مہیا ہو جائے تو تمام متاثرین کو الگ تھلگ کرنے کا راستہ ہموار ہو جائے گا۔
بجائے اس کے آئندہ مہینوں کے دوران پانچ ارب انسانوں کو قرنطینہ میں رکھا جائے ۔ہماری آرزو ہے کہ سب اس مرض سے محفوظ رہیں ۔ کورونا کے مریض شفا یا ب ہوجائیں اور یہ مصیبت ہمیشہ کے لیے ٹل جائے۔

شیئر: