Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’اریسٹ کیجریوال‘ اور ’مودی میڈ ڈیزاسٹر‘ والوں میں مقابلہ

انڈیا میں سوشل میڈیا پر وزیراعظم نریندر مودی کے حامیوں اور مخالفین میں ہر وقت تکرار رہتی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
انڈیا میں سنیچر کو کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کے ایک دن میں سب سے زیادہ کیسز رپورٹ ہوئے ہیں لیکن سوشل میڈیا پر سیاسی بحث جاری ہے اور ٹاپ سوشل ٹرینڈز سے ہی واضح ہو جاتا ہے کہ لوگ اس وبا سے مشترکہ طور پر لڑنے کے بجائے اپنی اپنی پارٹی کی حمایت کو زیادہ ضروری سمجھ رہے ہیں۔
ٹاپ ٹرینڈز میں 'اریسٹ کیجریوال' یعنی کیجریوال کو گرفتار کرو، ' مودی میڈ ڈیزاسٹر' یعنی مودی کی لائی ہوئی تباہی اور 'ذاتی واد سمپردایک میڈیا' یعنی ذات پات پر مبنی فرقہ وارانہ میڈیا شامل ہے۔

 

'اریسٹ کیجریوال' کا ٹرینڈ بظاہر اس وقت شروع ہوا جب دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کیجریوال کی عام آدمی پارٹی کے ایک رکن اسمبلی راگھو چڈھا نے ٹویٹ کیا۔ انھوں نے لکھا: 'ذرائع کے مطابق یوگی جی (اترپردیش کے وزیراعلیٰ) دلی سے یو پی جانے والے لوگوں کو دوڑا دوڑا کر پٹوا رہے ہیں۔ یوگی جی بول رہے ہیں کہ تم دلی کیوں گئے تھے۔ اب تم لوگوں کو کبھی دلی نہیں جانے دیا جائے گا۔ میری یوپی حکومت سے اپیل ہے کہ ایسا نہ کرے، اس مشکل گھڑی میں لوگوں کے مسائل کو نہ بڑھائے۔'
اس کے بعد سے بی جے پی کے حامیوں اور ٹرول کرنے والے لوگوں نے ’اریسٹ کیجریوال‘ جیسے ہیش ٹیگ کا استعمال کرتے ہوئے عام آدمی پارٹی کو تنقید کا نشانہ بنانا شروع کیا جبکہ راگھو چڈھا کے خلاف ایف آئی آر بھی درج کرائی گئی ہے۔

تمل ناڈو سے نریندر مودی کے ایک مداح 'نریندر مودی 175 ' نامی صارف نے لکھا: 'دہلی کے لوگوں نے اسے دوسری بار منتخب کیا۔ اس نے کیا کیا؟ اس نے دلی فسادات میں ہندوؤں کو مارنے والے جہادیوں کی حمایت کی۔ اب وہ کورونا کو پھیلا کر لوگوں کو مارنے کی کوشش کر رہا ہے اور اس کا الزام مودی پر ڈال رہا ہے۔ امید ہے کہ دلی کے عوام اپنی غلطی کو محسوس کریں گے۔ #ایرسٹ کیجریوال۔'

دریں اثنا اترپردیش حکومت نے سخت اقدام کے تحت گذشتہ تین دنوں کے اندر ریاست میں بطور خاص دہلی سے داخل ہونے والے ایک لاکھ سے زیادہ افراد کو قرنطینہ میں رکھنے کا فیصلہ سنایا ہے اور سنیچر کو جاری سرکاری بیان میں انھوں نے کہا کہ گذشتہ تین دنوں میں ریاست میں ایک لاکھ سے زیادہ افراد پڑوسی ریاستوں سے داخل ہوئے ہیں۔ ان کے نام، پتے اور فون نمبر ضلع مجسٹریٹ کو فراہم کیے گئے اور ان کی نگرانی کی جا رہی ہے۔
دوسری جانب دہلی میں اروند کیجریوال حکومت نے سکولوں کو مزدوروں کے لیے شیلٹر ہوم کے طور پر کھول دیا ہے اور وہاں کھانے بھی تقسیم کیے جا رہے ہیں۔
سنیچر  کو جب یہ خبر آئی کہ دہلی سے اترپردیش اور بہار کے لیے بس روانہ ہوگی تو ہزاروں کی تعداد میں لوگ آنند وہار بس ٹرمینل اور کشمیری گيٹ بس ٹرمینل پہنچ گئے جس سے افراتفری کا ماحول پیدا ہو گیا۔
دوسری جانب 'مودی میڈ ڈیزاسٹر' کے تحت لوگ حکومت ہند پر یہ الزام لگا رہے ہیں کہ حکومت نے لاک ڈاؤن کرنے میں تاخیر کا مظاہرہ کیا۔ سٹائلسٹ انو نامی ایک صارف نے لکھا: 'انڈیا میں کورونا کا پہلا کیس 30 جنوری کو سامنے آيا۔ راہل گاندھی نے 12 فروری کو کووڈ کے متعلق خبردار کیا۔ 22 مارچ کو ہم نے تھالی تالی منایا۔ حکومت ہند کے پاس بالترتیب 50 اور 38 دن تھے منصوبہ بندی کے لیے۔'

ان ایکولائزر نامی ٹوئٹر صارف نے لکھا: 'وزارت داخلہ نے کہا گھبرانے کی ضرورت نہیں سب کچھ قابو میں ہے۔ مودی نے کہا لاک داؤن، کہیں نہ جائیں۔ مودی نے کہا باہر نکلیں اور نو آدمیوں کی مدد کریں۔ یوگی نے کہا ہم نے ایک ہزار بسوں کا انتظام کیا ہے۔ اب کسے موجودہ صورت حال کے لیے مورد الزام ٹھہرایا جائے۔'

تیسرے ٹرینڈ میں میڈیا کے ایک حصے کو نشانہ بنایا گيا ہے جسے بہت سے لوگ 'گودی میڈیا' یعنی وہ میڈیا جو ’حکومت کا چاپلوس‘ ہے۔ اس ٹرینڈ میں میڈیا کو عوام اور بطور خاص بڑے شہروں میں رہنے والے مزدوروں کی حالت زار کو نظر انداز کرنے پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
روفیل انڈ1 نامی ایک صارف نے ایک تصویر کے ساتھ لکھا: 'کوئی گودی میڈیا اس کے بارے میں حکومت سے کچھ پوچھ رہا ہے۔۔ نہیں، کیونکہ انھیں غریبوں کے دکھ پر درد نہیں ہوتا۔۔ وہ متعصب ہیں۔'
دوسری جانب مختلف ریاستوں میں پولیس کی جانب سے عوام سے بدسلوکی کی خبریں بھی آ رہی ہیں اور سوشل میڈیا پر ایسی ویڈیوز بھی شیئر کی جا رہی ہیں جن کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں کی جا سکی۔

شیئر: