Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وینٹی لیٹر پر چھ دن: 'میں نے سوچا یہ مرنے کا وقت نہیں'

ڈیوڈ لٹ نے وینٹی لیٹر پر گزارے گئے چھ دنوں کی کہانی بیان کی ہے (فوٹو:واشنگٹن پوسٹ)
کورونا وائرس کی عالمی وبا کے سامنے آنے کے بعد مریضوں کو سانس لینے میں مدد فراہم کرنے والے وینٹی لیٹرز نے دنیا بھر میں شہرت حاصل کی ہے۔ مختلف ممالک کی حکومتیں وینٹی لیٹرز کی تعداد بڑھا کر زیادہ سے زیادہ مریضوں کی جان بچانے کی کوشش کر رہی ہیں۔
کورونا وائرس کے بہت سے مریض ایسے ہیں جن کو سانس لینے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اگر انہیں وینٹی لیٹر فراہم نہ کیا جائے تو وہ مر جائیں گے۔
امریکہ میں قانونی معاملات کا احاطہ کرنے والی ایک ویب سائٹ 'قانون سے اوپر' کے ایڈیٹر اور لیگل فرم کے مینیجنگ ڈائریکٹر ڈیوڈ لٹ بھی کورونا کا شکار ہونے کے بعد وینٹی لیٹر پر چلے گئے تھے۔
امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں انہوں نے وینٹی لیٹر پر گزارے گئے چھ دنوں کی کہانی بیان کی ہے۔
ان کے مطابق 'میں نے انتہائی تشویش ناک حالت میں نیویارک یونیورسٹی کے لینگون میڈیکل سینٹر میں انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں وینٹی لیٹر پر چھ دن گزارے۔ میں آج زندہ نہ ہوتا اگر مجھے وینٹی لیٹر نہ ملتا۔'
'کورونا کا شکار ہونے کے باعث مجھے 16 مارچ کو ہسپتال میں داخل کرایا گیا۔ مجھے فلو، سر درد اور تھکاوٹ جیسی شکایات تھیں مگر سب سے تکلیف دہ امر یہ تھا مجھے سانس لینے میں بھی دشواری تھی۔'
ان کے بقول 'میں نے ہسپتال میں اپنے ابتدائی دن مستحکم حالت میں گزارے، اضافی آکسیجن لی مگر 20 مارچ کی شام کو میری حالت انتہائی خراب ہوگئی۔ اس رات مجھے پتا چلا کہ اب مجھے ویٹی لیٹر کے ذریعے سانس لینا ہوگا۔ میں اس سے ڈر گیا کیونکہ کچھ دن پہلے ہی ہسپتال میں داخل ہونے کے بعد میرے والد نے مجھ سے کہا تھا کہ بہتر ہوگا کہ وینٹی لیٹر نہ لگوانا، جنہیں وینٹی لیٹر پر رکھا جائے وہ بچتے نہیں ہیں۔'

کورونا وائرس کے بہت سے مریض ایسے ہیں جن کو سانس لینے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے (فوٹو:سوشل میڈیا) 

ڈیوڈ لٹ کے مطابق جب نرسوں نے انہیں وینٹی لیٹر پر لے جانے کے لیے تیار کیا تو انہوں نے سوچا کہ ابھی ان کے مرنے کا وقت نہیں ہے۔ 'میرا ایک دو سال کا بیٹا ہے، میں اسے سکول سے گریجویشن کرتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہوں اور پھر اگر اس کی شادی اور بچے ہو جاتے ہیں تو میں ان کے ساتھ رہنا چاہتا ہوں، لہذا میں نے بار بار دعا کرنا شروع کر دی۔'
اس کے بعد انہیں بے ہوشی کی دوا دی گئی اور وہ جلد ہی سو گئے۔ 'میں اگلے چھ دن سویا رہا، اس وقت میں وینٹی لیٹر نے وہ کام کیا جو اس سے قبل میرے پھیپھڑے کرتے تھے۔ ان چھ دنوں مں کیا کچھ ہوا، مجھے یاد نہیں لیکن میں وینٹی لیٹر کے ذریعے سانس لینے کے بعد بھی زندہ بچ جانے کی وجہ سے خود کو خوش قسمت تصور کرتا ہوں۔' 
چھ دن بعد ڈاکٹروں نے متعدد ٹیسٹ کرنے کے بعد ڈیوڈ کا وینٹی لیٹر اتار دیا اور وہ دوبارہ قدرتی طریقے سے سانس لینے لگے۔ 'ایک ایسے مریض کے طور پر جس کی زندگی وینٹی لیٹر نے بچائی ہے، میں سمجھتا ہوں کہ یہ ہمارے جیسے امیر ملک (امریکہ) کے لیے باعث شرم ہوگا کہ اگر ہم وینٹی لیٹرز کی کمی کی بات بھی کریں۔ ہمیں یہ یقینی بنانا چاہیے کہ ہر اس مریض کو وینٹی لیٹر ملے جسے اس کی ضرورت ہو تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کی زندگیاں بچ سکیں۔'   

ڈیوڈ کے بقول 'سب سے تکلیف دہ امر یہ تھا مجھے سانس لینے میں بھی دشواری تھی' (فوٹو:سوشل میڈیا)

ان کے مطابق 'میں خوش قسمت ہوں کہ وینٹی لیٹر پر جانے کے بعد بھی بچ گیا تاہم میری زندگی پہلے جیسی نہیں رہی۔ بہت سارے مریض جو وینٹی لیٹر پر جانے کے بعد بچ جاتے ہیں وہ دیرپا جسمانی، ذہنی اور جذباتی مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں۔'
'میرے پھیپڑوں کو سانس لینے کی پوری صلاحیت دوبارہ بحال کرنا ہوگی۔ اب میں پہلے کی طرح سانس نہیں لے پاتا۔ پہلے میں دوڑ لگاتا تھا مگر اب میں ایک کمرے سے دوسرے کمرے تک جاتے اور سیڑھیاں چڑھتے میرا سانس پھولنے لگتا ہے۔ مجھے باہر تازہ ہوا لینے کے لیے وہیل چیئر کے بغیر نہیں جاسکتا۔ نہاتے ہوئے بھی میں زیادہ دیر کھڑا نہیں رہ سکتا، میں نے اپنے باتھ ٹب میں پلاسٹ کا ایک سٹول رکھا ہوا ہے جس پر بیٹھ کر نہاتا ہوں۔
انہوں نے بتایا کہ وینٹی لیٹر پر رہنے کے بعد میری آواز بھی بدل چکی ہے تاہم میرے ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ یہ نقصان دیرپا نہیں وقت کے ساتھ ٹھیک ہوجائے گا۔
ڈیوڈ کا کہنا ہے کہ 'میں کوئی شکوہ نہیں کررہا، میری زندگی بچانے میں وینٹی لیٹر کا ہی کردار ہے جس کے لیے میں شکرگزار ہوں۔ '

شیئر: