Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حجام کی ہوم سروس: بال تو کٹوانے ہیں

کورونا کے پھیلاؤ کے خدشے کے باعث حجاموں کو دکانیں بند کی گئیں (فوٹو: اے ایف پی)
حالات جیسے بھی ہوں زندگی چلتی رہتی ہے اوروقت گزرنے کے ساتھ انسان مخصوص حالات میں زندہ رہنے کے طور طریقے سیکھ ہی جاتا ہے۔
ایسا ہی کچھ حالیہ لاک ڈاؤن کے دوران ہو رہا ہے جب کاروبار زندگی بند ہے اور انسانوں نے روز مرہ کے امور نمٹانے کے لیے مختلف طریقے ڈھونڈ لیے ہیں۔
دفاتر کے لوگ گھروں میں بیٹھ کر دفتروں کا کام کر رہے ہیں، سکولوں کے بچے آن لائن کلاسیں لے رہے ہیں اور تاجر گھرسے ہی فون پر دکانوں کا سامان فروخت کر رہے ہیں، اور تو اور سبزی، پھل اور گھر کا سارا راشن بھی ایک فون کال پر ہی دروازوں پر پہنچ رہا ہے۔
لیکن اتنے ہفتے گھر میں رہنے کے بعد جس چیز کی سب سے زیادہ پریشانی تھی وہ تھی بال کٹوانے کی، کیونکہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے حکومت نے حجام کی  تمام دکانیں بند کر رکھی ہیں۔
کچھ لوگوں نے تو اپنی شریک حیات، والدہ، بہن یا بھائی کی مدد سے اپنی حجامت خود ہی کر لی، لیکن جن کے خانگی امور مثالی نہ تھے یا جن کے اہل خانہ اس کام میں مدد کی مہارت نہیں رکھتے انہیں بال کٹوانے کے لیے کافی تشویش لاحق تھی۔
ایسے میں جہاں باقی سب شعبوں کے افراد نے پابندیوں کے اس دور میں آن لائن اور ہوم ڈیلیوری کا حل نکالا، وہاں حجام بھائی بھی پیچھے نہیں رہے اور انہوں نے بھی ایک ٹیلی فون پر ہوم سروس کا آغاز کر دیا ہے۔
درحققیت حجام کی ہوم سروس کسی بھی ہوم ڈیلیوری سروس سے زیادہ قدیم ہے۔ پچھلی صدی تک گاؤں دیہاتوں میں یہ رواج رہا ہے کہ حجام گھروں میں جا کر لوگوں کے بال کاٹتے اور داڑھیاں مونڈھتے تھے لیکن کمرشلائزیشن کے بعد نہ صرف جگہ جگہ حجام کی دکانیں کھل گئیں بلکہ اب تو جدید ایئر کنڈیشنڈ سیلون اور پارلرز میں ہی بال کٹوانے کو ترجیح دی جاتی ہے۔

حجاموں نے بھی ٹیلی فون پر ہوم سروس کا آغاز کر دیا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

جب حکومت نے یہ تمام سیلونزاور حجام کی دکانیں بند کیں تو حجام نے بھی عوام کے پرزور مطالبے پر اپنا یہ قدیم کام دوبارہ شروع کر دیا کیونکہ بہت سے لوگ باہر جا کر بال کٹوانے کی بجائے گھر پر ہی یہ کام نمٹانے کو ترجیح دے رہے ہیں، وہ گھر سے باہر نکلنے میں انفیکشن کے بدستور خطرے سے بچنا چاہتے ہیں۔
 سو حجام حضرات کی یہ ’ہوم سروس‘ اب مستقل گاہکوں سے ہوتی ہوئی ان کے دوستوں اور پھر ان کے دوستوں سے آگے وسعت اختیار کرتی جا رہی ہے۔
یہ سروس اسلام آباد کی ایک رہائشی سوسائٹی پی ڈبلیوڈی میں کراچی سے آئے حجام شبیرعلی بھی فراہم کر رہے ہیں جنہوں نے اپنے مستقل گاہکوں کے ذریعے اپنا نمبر واٹس ایپ کے مختلف گروپوں میں بھجوایا اور دیکھتے ہی دیکھتے انہیں درجنوں کالز موصول ہونا شروع ہو گئیں جن میں لوگ ان سے گھر آ کر بال کاٹنے کی فرمائش کر رہے تھے۔
شبیر نے ’اردو نیوز‘ کو بتایا کہ 'کاروبار بند ہونے کی وجہ سے وہ پریشان تھے کیونکہ ان کی دکان تو بند تھی لیکن گھر کے خرچے مسلسل چل رہے تھے، پھر انہیں خیال آیا کہ کیوں نہ وہ اپنے فون نمبر کی تشہیر کر کے لوگوں کے گھروں میں جا کر بال کاٹنا شروع کر دیں۔'

گھروں پر بال کاٹنے سے کام کا معیار بھی متاثر ہوا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

ان کا کہنا ہے کہ 'اب دکانیں کھل گئی ہیں اور وہ زیادہ کام دکان پر ہی کر رہے ہیں لیکن شدید پریشانی کے دنوں میں انہوں نے لوگوں کو گھر جا کر سروس دی جس سے نہ صرف  گاہکوں کا کام ہو گیا بلکہ انہیں بھی مناسب آمدنی ہو گئی۔' 
تاہم شبیر کا کہنا ہے کہ 'گھر پر گاہکوں کا کام تو ہو گیا لیکن کوالٹی ضرور متاثر ہوئی کیونکہ دکان یا سیلون پر پروفیشنل کرسی اور شیشے کے سامنے کام کرنے اور گھر پر گھریلو حالات میں کام کرنے میں بہت فرق ہے۔'
اسلام آباد کے سیکٹر جی 15 میں ’ہیئرڈریسنگ شاپ‘ چلانے والے افضال احمد لاک ڈاؤن کے پہلے پندرہ دن بے روزگار بیٹھے۔ اس کے بعد جب وہ معاشی تنگی اور پریشانی سے لاچار ہو گئے تو انہوں نے اپنے پرانے گاہکوں کو کالز کرنا شروع کر دیں کہ اگر انہوں نے حجامت کروانی ہے تو وہ ان کے گھر آسکتے ہیں، اس طرح لوگوں نے انہیں گھر پر بلانا شروع کر دیا اور اب تک وہ تقریباً تیس گھروں میں جا کر پورے کے پورے کنبے کے بال کاٹ چکے ہیں۔
لیکن افضال احمد کہتے ہیں کہ ان کا کام ایسا اچھا نہیں جیسا دکان پر چلتا تھا۔ ان کے بقول حکومتی اجازت کے باوجود مقامی پولیس ان کے علاقے میں حجام کو دکانیں کھولنے نہیں دے رہی۔ وہ سمجھتے ہیں کہ حجام پر پابندی لگانے کا سرے سے کوئی جواز ہی نہیں کیونکہ تمام حجام کورونا وائرس سے پہلے ہی اپنے آلات باقاعدہ سینیٹائزیشن کے بعد استعمال کرتے تھے۔

حجام کے مطابق وہ پہلے ہی آلات سینیٹائز کرتے تھے (فوٹو: اے ایف پی)

افضال کے ایک گاہک جمال عبداللہ نے ان کی خدمات لینے سے پہلے اپنی حجامت خود کرنے کی کوشش کی لیکن ناکامی کی صورت میں مجبوراً افضال کو گھر پر بلانا پڑا۔
’میں نے اپنی اہلیہ سے کہا کہ میری حجامت تم بنا دو، تو انہوں نے یہ کہہ کرانکار کر دیا کہ ان سے نہیں ہو پائے گی اور ان کی کٹنگ کا مذاق بن جائے گا۔ پھر میں نے خود کوشش کی جس کے نتیجے میں بال بھی عجیب سے ہو گئے اور ایک مونچھ بڑی رہ گئی جب کہ ایک چھوٹی ہو گئی۔ پھر میں نے سوچا کہ حجام کو گھر پر بلائے بغیر کام نہیں بنے گا۔‘ 
  تاہم جمال افضال کے گھر پر کیے گیے کام سے بھی مطمئن نہیں ہیں۔
’کام کی کوالٹی میں فرق ہے جس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ میں نے انہیں کہا تھا کہ تھوڑے فاصلے پر رہ کر بال کاٹیں تاکہ انفیکشن نہ ہو اور دوسرا ظاہر ہے باربر شاپ پر جو پروفیشنل کرسی ہوتی ہے اس پر وہ آسانی سے کام کر سکتے ہیں بہ نسبت گھر کی عام  کرسی پر بٹھا کر بال کاٹنے سے، لیکن ان حالات میں یہ بھی غنیمت ہے کیوں کہ کم از کم بال تو کٹ گئے۔‘
  • واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: