Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’لاک ڈاؤن کے دوران اپنی سکھیوں کو مِس کرتی ہوں‘

لاک ڈاؤن سے ستائے مرد و خواتین گھومنے پھرنے کو ترس رہے ہیں (فوٹو: سوشل میڈیا)
پاکستان میں لاک ڈاؤن کو ایک ماہ ہو گیا ہے جو باقی ممالک کی طرح سخت نہیں ہے، لیکن اس کے باوجود بہت سے افراد نے کورونا سے بچاؤ کے لیے مکمل احتیاطی تدابیر کے ساتھ گھر میں رہنا ہی مناسب سمجھا۔
اس عرصے کے دوران کئی مرد و خواتین نے تو مسلسل گھر میں رہنے کا ریکارڈ بھی قائم کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے اپنے دوستوں، رشتہ داروں، بہن بھائیوں اور باہر جا کر کھانے پینے کو بہت یاد کیا ہے۔
یہ وقت خاص طور پر ان لوگوں کے لیے دشوار ہے جو معمول کے مطابق باہر جاتے اور اپنے دوستوں، کولیگز اور کلاس فیلوز سے روزانہ ملتے اور گپ شپ ان کا معمول ہوتا ہے، لیکن گھریلو خواتین کے لیے بھی اتنا طویل عرصہ گھر میں رہنا آسان نہیں ہے۔ 

 

صالحہ بیگم ایک ہاوس وائف اور تین بچوں کی ماں ہیں۔ آخری بار وہ پندرہ مارچ کو ایک ولیمے میں شرکت کے لیے گھر سے نکلی تھیں۔ اس کے بعد اب تک ان کا سارا وقت گھر پر ہی گزرتا ہے۔ 
وہ کہتی ہیں کہ 'یاد نہیں پڑتا کہ اس سے پہلے کبھی اتنا طویل عرصہ گھر سے باہر نہ نکلی ہوں۔  کہیں نہ کہیں تو جانا پڑ ہی جاتا ہے۔ اب اگرچہ بچے اور شوہر سب گھر پر ہیں۔ کسی چیز کی کمی بھی نہیں لیکن گھر سے باہر جانے کا دل کرتا ہے۔ اب تو دل کرتا ہے کہ کسی کھلی جگہ پر جا کر کئی گھنٹے سکون سمیٹا جائے۔
وہ لاک ڈاؤن سے پہلے کے دنوں کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ 'بچوں کو سکول بھیج کر جو سکون کا ناشتہ کرتی تھی اب وہ ممکن نہیں ہو پا رہا جس کو میں شدت سے مس کر رہی ہوں۔ گھر میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے نہ ملازمہ ہے اور نہ ہی کوئی صفائی والی۔ اس چیز کا احساس شدت سے ہو رہا ہے کہ ان لوگوں کا ہماری زندگی میں کتنا اہم کردار ہے۔ بس اب تو بچوں کے کاموں نے لاک ڈاؤن میں ناکوں چنے چبوا دیے ہیں۔'
انھوں نے اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ 'لاک ڈاؤن ختم ہو جائے تو ڈھیر ساری شاپنگ کرنی ہے۔ کاش کورونا عید سے پہلے ہماری جان چھوڑ دے۔'
نوکری پیشہ خواتین کی اور بھی سختی ہے۔ انھیں گھر پر رہ کر گھر اور دفتر دونوں کا کام کرنا پڑتا ہے۔ 

نوجوان طالب علم فرحان خالد دوستوں کے ساتھ باہر جا کر کھانوں کی محفلیں سجانا چاہتے ہیں

عابدہ سلیم کی فیملی بہت مختصر ہے، بڑی دونوں بیٹیاں بیاہ کر اپنے گھروں کو جا چکی ہیں۔ وہ اپنے میاں اور چھوٹی بیٹی کے ساتھ گھر پر ہیں۔ اگرچہ وہ دونوں ماں بیٹی جاب کرتی ہیں لیکن اب ایک ماہ سے زیادہ ہو گیا ہے کہ دونوں ہی گھر سے باہر نہیں نکلیں۔ وہ اکثر باہر جا کر کھانا کھاتی تھیں۔ اب دونوں اپنی اس سرگرمی کو مس کرتی ہیں۔ 
عابدہ سلیم کو اپنے رشتہ داروں بالخصوص بیٹیوں کی یاد ستا رہی ہے۔ وہ چاہتی ہیں کہ 'موقعہ ملے اور سب مل بیٹھیں لیکن گھر پر نہیں بلک کسی پارک میں تاکہ تازہ ہوا میں فریش ہوسکیں۔
یونیورسٹی طالبات کا معمول تو یہ ہوتا ہے کہ وہ نہ کلاس مس کرتی ہیں اور نہ ہی گپ شپ۔  آمنہ مرتضیٰ کو گھر پر رہ کر اس سب کی یاد ہلکان کیے جا رہی ہے۔
 ان کا کہنا ہے کہ 'میں ایک ماہ سے گھر پر ہوں۔ ایک دن بھی گھر سے باہر نہیں نکلی۔ گول گپوں اور اپنی کلاس فیلوز بالخصوص اپنے گینگ کی یاد ستا رہی ہے۔ اکیلے میں ٹک ٹاک بنا بنا کر بور ہو گئی ہوں۔
کہتی ہیں کہ 'لاک ڈاؤن ختم ہوگا تو سب سے پہلے یونیورسٹی اور پھر شاپنگ پر جاؤں گی وہ بھی اپنی ساری سہیلیوں کو ساتھ لے کر، اکیلے میں شاپنگ کا مزہ تھوڑی آتا ہے۔

نوجوان بھی اپنے گھروں یا محلے تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں (فوٹو: سوشل میڈیا)

صرف خواتین ہی گھروں تک محدود نہیں ہیں بلکہ مردوں بالخصوص نوجوانوں کی بڑی تعداد بھی اپنے گھروں یا کم سے کم محلے تک ہی محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ ان نوجوانوں کی بڑی تعداد یونیورسٹی طلبہ کی ہے جن میں سے کچھ ہاسٹل میں رہتے تھے لیکن کورونا کے باعث اب وہ یونیورسٹی اور ہاسٹل دونوں سے دور ہیں۔ 
ایسے ہی ایک نوجوان فرحان خالد ہیں جو گذشتہ چھ سال سے لاہور میں قیام پذیر ہیں۔ آج کل ایک یونیورسٹی میں پڑھتے ہیں۔ ہاسٹل بند ہوا تو گاؤں چلے گئے۔ کہتے ہیں کہ 'پچھلے چھ برسوں میں پہلی بار ہے کہ تیس دن سے لاہور نہیں دیکھا۔ موقعہ ملتے ہی سب سے پہلے لاہور کے درشن کرنے جاؤں گا اور دوست تو رابطے میں ہیں لیکن صحبت یاراں کی بحالی کا انتظار ہے۔
فیصل رزاق دبئی میں اپنے والد کے ساتھ کنسٹرکشن کے کاروبار میں ان کا ہاتھ بٹاتے ہیں۔ لاہور ہی میں زمانہ طالب علمی گزارا۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ایک ماہ ہوگیا ہے گاؤں سے ہی باہر نہیں گیا۔ لاک ڈاؤن ختم ہو گا تو لاہور کے کھابوں کی یاد ستا رہی ہے دوستوں کے ساتھ وہیں جاؤں گا۔‘
  • واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں

 

شیئر: