کئی عشرے بیت جاتے ہیں اور کچھ بھی نہیں ہوتا اور پھر چند ایسے ہفتے آتے ہیں جن میں کئی عشرے سمٹ جاتے ہیں (لینن)۔
ویسے تو ہر نسل کو یہ کہنے کا حق ہے کہ وہ پچھلی تمام نسلوں سے زیادہ گردشِ افلاک دیکھ چکی ہے، مگر یہ تعلی نہیں حقیقت ہے کہ میری نسل نے پچھلی نصف صدی میں جتنی تیز رفتار تبدیلیاں دیکھی ہیں ایسی نصف صدی پہلے کبھی نہیں گزری۔
جب میں 58 برس پہلے پیدا ہوا تو اس وقت اطلاعات کی ترسیل کے دو ذرائع تھے۔ اخبار اور ریڈیو۔ جب ہوش سنبھالا تو ٹیلی ویژن گھروں میں چار پاؤں پسارنے لگا۔ ایریل اور تار والے ریڈیو کی جگہ ٹرانزسٹر نے لے لی۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی رنگین ہو گیا اور سنیما وی سی آر کی شکل میں ہماری خواب گاہوں میں در آیا ۔ سپول والا جرمن ٹیپ ریکارڈر جاپانی کیسٹ پلیئر سے شرما گیا۔ ٹیلی فون امرا کی لگژری تھی جسے غریب آدمی دور دور سے تکتا تھا۔ فوری چھٹی تار کی شکل میں بھیجی جاتی تھی۔ پھر ایک روز اسی تار گھر کو فیکس مشین نے فارغ کر دیا اور فیکس کو ای میل نے چلتا کر دیا۔ دستاویزات کی نقول بنانے کا کوئی تصور نہیں تھا ۔ کیمرے سے اہم دستاویزات کے فوٹو کھینچے جاتے تھے مگر فوٹو سٹیٹ مشین نے یہ مسئلہ بھی چٹ پٹ حل کر دیا۔
مزید پڑھیں
-
پیمرا، عمران سیریز اور دیگرNode ID: 454671
-
کورونا کے خلاف ’جنگ‘ کے گمنام ہیروزNode ID: 472901
-
پاکستان کے دیہی علاقوں کی رونقیں بحالNode ID: 473376