Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پلازمہ سے مریضوں کے علاج میں پیش رفت کیوں نہیں؟

پاکستان میں 100 صحتیاب مریضوں میں سے 25 سے 20 پلازمہ عطیہ کرتے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)
کورونا وائرس کے صحت یاب مریضوں سے پلازمہ حاصل کر کے دیگر مریضوں کے علاج کے طریقہ کار کی حکومتی سرپرستی کے باوجود ابھی تک اس حوالے سے خاطر خواہ پیش رفت دیکھنے میں نہیں آئی جس کی ایک وجہ بیشتر صحت یاب افراد کا پلازمہ عطیہ کرنے سے انکار ہے۔
نیشنل انسٹیٹیوٹ آف بلڈ ڈیزیز کے سربراہ ہیماٹولوجسٹ ڈاکٹر طاہر شمسی نے گذشتہ ماہ کورونا وائرس سے صحت یاب ہونے والے مریضوں کے خون سے پلازمہ نکال کر اسے زیرِ علاج مریضوں کی قوتِ مدافعت بڑھانے اور وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کی تجویز دی تھی۔
وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے اس طریقہ علاج کو آزمانے کی منظوری دی تھی جس کے بعد کلینیکل ٹرائلز کیے گئے تھے۔

 

طب کی اصطلاح میں اس طریقہ علاج کو پیسیو ایمیونائزیشن کہتے ہیں جس میں مریض اور دیگر افراد کی مدافعت کو مصنوعی طور پر بڑھا کر وائرس کے پھیلاؤ کو روکا جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ 'طریقہ علاج اس صورت میں اپنایا جاتا ہے جب وبا کے تیزی سے پھیلاؤ کا خطرہ شدید ہو اور جسم میں قوتِ مدافعت پیدا ہونے میں وقت درکار ہو۔'
ڈاکٹر طاہر شمسی نے اردو نیوز کو بتایا کہ 'چین نے فروری میں اسی طریقہ علاج سے کورونا وائرس کے پھیلاؤ پر قابو پایا تھا، اب پاکستان کے مختلف شہروں میں قائم نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف بلڈ ڈیزیز کے سنٹرز پر خون سے پلازمہ نکالنے کے لیے سہولیات مہیا کر دی گئی ہیں۔'
'صرف کراچی کے سینٹر میں یومیہ 40 افراد کا پلازمہ نکالنے کی استعداد موجود ہے، جبکہ لاہور، سکھر، جامشورو اور دیگر شہروں میں بھی یہ سینٹرز قائم ہیں۔ ایک فرد سے پلازمہ نکالنے کا خرچہ 50 ہزار کے لگ بھگ ہے، مگر این آئی بی ڈی یہ پراسس بغیر معاوضے کے کرے گا۔'
تاہم ڈاکٹر طاہر شمسی نے اردو نیوز کو بتایا کہ 'عمومی طور پر کورونا وائرس کے صحت یاب مریض خون اور پلازمہ عطیہ کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔'

ڈریپ نے گذشتہ ہفتے اس طریقہ علاج کے استعمال کی منظوری دی (فوٹو: اے ایف پی)

'100 میں سے صرف 25 سے 30 افراد ہی پلازمہ عطیہ کرنے کے لیے رضامند ہوتے ہیں۔ حکومت اس حوالے سے صحت یاب مریضوں کو آگاہی فراہم نہیں کر رہی جس کی وجہ سے انہیں پلازمہ عطیہ کرنے کے لیے رضامند کرنا مشکل ہوتا ہے۔'
ڈاکٹر طاہر شمسی کا کہنا ہے کہ 'چین اور جنوبی کوریا کے مریضوں کے برعکس پاکستان کے صحت یاب ہونے والے مریضوں میں امید افزا بات یہ ہے کہ کوئی بھی شخص ایک بار صحت یاب ہونے کے بعد دوبارہ اس مرض کا شکار نہیں ہوا۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان افراد کے خون میں بننے والا مدافعتی مادہ وائرس کے سامنے مکمل کارگر ہے جس کو استعمال کرتے ہوئے دیگر مریضوں کو بھی بچایا جا سکتا ہے۔'

پاکستان میں پلازمہ کا پہلا عطیہ کورونا کے پہلے مریض نے دیا تھا (فوٹو: اے ایف پی)

نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف بلڈ ڈیزیز نے عطیات کے ذریعے دو ہزار مریضوں سے پلازمہ اکھٹا کرنے کی سہولت حاصل کر لی ہیں جبکہ ڈاکٹر طاہر شمسی کا کہنا ہے کہ 'وہ اس حوالے سے حکومتی کمیٹی کی رہنمائی بھی کرر ہے ہیں۔'
ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان نے گذشتہ ہفتے اس طریقہ علاج کے استعمال کی منظوری دی تھی۔  ڈاکٹر طاہر شمسی نے امید ظاہر کی کہ 'چند دنوں میں سندھ حکومت کی جانب سے اس طریقہ علاج کو مریضوں پر آزمانے کی قانونی اجازت بھی مل جائے گی جس کے لیے تمام کاغذی کارروائی مکمل ہے۔'
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ 'کورونا وائرس کے تمام تر مریض سرکاری مراکز میں زیر علاج ہیں اور قانونی اجازت ملنے پر ان کی ٹیم انہی مراکز میں جا کر علاج شروع کر دے گی۔'

ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ پلازمہ کا عطیہ دینے کے لیے آگاہی مہم کی ضرورت ہے (فوٹو: اے ایف پی)

واضح رہے کہ سندھ حکومت کی جانب سے کلینیکل ٹرائلز کی اجازت ملنے کے بعد این آئی بی ڈی میں کورونا وائرس کے صحت یاب ہونے والے افراد سے پلازمہ نکالنے کا آغاز کر دیا گیا تھا اور اس حوالے سے پلازمہ کا پہلا عطیہ پاکستان میں کورونا وائرس کے پہلے مریض کراچی کے طالب علم یحییٰ جعفری نے دیا تھا۔
طبی ماہرین کے مطابق پلازمہ میں اینٹی باڈیز ہوتی ہیں جو وائرس کے خلاف قوت مدافعت بڑھاتی ہیں۔ ڈاکٹر طاہر شمسی کے بقول 'زیرِ علاج مریض پر پلازمہ منتقلی کے 48 سے 72 گھنٹوں بعد اثر واضح ہوگا اور مریض کی حالت سنبھلنے لگے گی۔'

شیئر: