Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’سلام ان کو جو دنیا کو چلائے رکھتے ہیں‘

لاک ڈاؤن کی وجہ سے رواں سال مزدوروں کے عالمی دن پر تقاریب نہیں ہو رہیں (فوٹو: اے ایف پی)
کسی نے کہا تھا کہ دنیا سے بڑے بڑے نام رکھنے والے شعبے یا پیشے ختم ہو جائیں تو شاید آگے بڑھنے کا سفر ہی متاثر ہو لیکن اگر روزمرہ ذمہ داریاں ادا کرنے والے مزدوروں کو کچھ ہوا تو ہم جہاں ہیں وہاں سے بہت پیچھے چلے جائیں گے۔
پاکستان سمیت دنیا کے بیشتر ملکوں کی سوشل میڈیا ٹائم لائنز بھی یوم مئی یا مزدوروں کے عالمی دن کے حوالے سے کچھ ایسے ہی خیالات کا اظہار کر رہی ہیں۔ ٹرینڈز لسٹ کے تین بڑے ٹرینڈز مزدوروں کی کاوشوں، ان کی ہمت و حوصلے اور معاشرے کی بقا کے لیے ان کے کردار کا اعتراف کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔
سوشل میڈیا صارفین نے اپنی گفتگو میں مزدوروں کو درپیش مسائل اور حالات کا ذکر کیا تو ساتھ ساتھ یہ یاددہانی بھی کرائی کہ ہم میں سے ہر ایک اپنی ذاتی حیثیت میں ایسا کیا کر سکتا ہے جو ان افراد کا حق ہے۔
سادھنا نامی صارف نے اپنے بچے کو دوپٹے میں لپیٹ کر کمر پر لادے اینٹیں ڈھوتی ایک مزدور خاتون کی تصویر ٹویٹ کرتے ہوئے اس کے ساتھ لکھا ’انہیں آپ کی کار، گھر، جائیداد اور بہت سی دولت نہیں چاہیے، وہ صرف احترام چاہتے ہیں۔‘
 

عمیر نامی صارف گفتگو کا حصہ بنے تو انہوں نے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کی تصاویر شیئر کرتے ہوئے لکھا ’زندگی کا بوجھ ڈھونے کو لوگ مختلف طریقوں سے مزدوری کرتے ہیں۔‘
 

انڈرپیڈ بینکر دادا نامی ہینڈل کا کہنا تھا کہ اگر دنیا کے تمام کارکن اچانک غائب ہو جائیں تو دنیا رک جائے۔ آئیں ہم سب یہ سمجھیں اور کارکنوں کو سراہیں، یہ وہ عظیم لوگ ہیں جو ہماری دنیا کو متحرک رکھے ہوئے ہیں۔ اس یوم مزدور پر کسی کارکن کو تلاش کریں اور اس کا شکریہ ادا کریں۔‘
 

یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز لاہور کے وائس چانسلر ڈاکٹر جاوید اکرم سے منسوب ہینڈل نے لکھا ’جو کاروبار اپنے کارکنوں کو ضرورت بھر معاوضے سے کم ادائیگی کے ذریعے خود کو برقرار رکھے ہوئے ہیں انہیں اس ملک میں جاری رہنے کا کوئی حق نہیں ہونا چاہیے۔
 

حقوق کا ذکر ہوا تو ایک اور صارف نے لکھا کہ ’آئیں حقیقت پسند بنیں، ایک دن ان کی قسمت نہیں بدل سکتا البتہ ہمیں چاہیے کہ ان کا کام ختم ہوتے ہی انہیں معاوضہ ادا کیا کریں اور ان سے اچھائی اور نرمی کا سلوک کریں۔‘
 

ستیا بولیسیتی نامی صارف کا کہنا تھا کہ آج خود مزدور بھی یوم مزدور کے حقیقی مفہوم کو بھول چکے ہیں۔ ایسا شاید قیادت نہ ہونے یا اپنے مسلمہ حقوق کے لیے جدوجہد کر سکنے کی صلاحیت نہ ہونے کی وجہ سے ہوا ہے۔
 

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ سے بھی یوم مزدور کے حوالے سے پیغام جاری کیا گیا۔ انہوں نے لکھا ’مختلف ملکوں میں یوم مئی کارکنوں کو سراہنے کا دن ہے۔ شاید ماضی کے برعکس اس مرتبہ ہم اپنے معاشرے کو چلتا رکھنے والے ضروری کاموں سے وابستہ کارکنوں کو بہتر پہچان سکتے ہیں۔ جو اپنا کام کھو چکے ہمیں ان کے لیے ملازمتیں پیدا کرنی چاہیں، اپنے لفظوں اور عمل سے ان کے کام کا احترام کرنا چاہیے۔‘

سانچیتا نامی صارف نے یوم مئی کے آغاز کا سبب بننے والے واقعے سے متعلق یاددہانی کرائی۔ انہوں نے لکھا ’شکاگو کے تارکین وطن مزدوروں نے مئی 1886 میں آٹھ گھنٹے کے اوقات کار کی جدوجہد کے دوران اپنی جانیں قربان کیں۔ انہوں نے دنیا بھر کے کارکنوں کو اپنے حقوق کے لیے کوشش کرنے کا راستہ مہیا کیا۔‘
 

پاکستان سمیت دنیا کے مختلف ملکوں میں یوم مزدور کے موقع پر یکم مئی کو عام تعطیل ہوتی ہے۔ یہ دن مزدورں کی جانب سے ماضی میں کی گئی جدوجہد باالخصوص اوقات کار کے تعین کے لیے کی گئی کوششوں سے متعلق یاد دہانی اور کارکنوں کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے منایا جاتا ہے۔
  • واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: