Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کورونا کے پھیلاؤ پر تحقیقات، یورپین کمیشن کی بھی حمایت

کمیشن کی صدر نے کہا کہ وہ نہیں سمجھتیں کہ اس طرح کی تحریک یورپ اور چین کے درمیان تعلقات میں خرابی کا سبب بن سکتی ہے (فوٹو: ٹوئٹر)
چین کے شہر ووہان سے کورونا واائرس کے پھیلاؤ کی بین الاقوامی تحقیقات کا مطالبہ زور پکڑنے لگا ہے۔ اب یورپین کمیشن کی صدر اُرزُولا فان ڈیئر لاین نے بھی اس مطالبے کی حمایت کر دی ہے۔
امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے مطابق جب یورپین کمیشن کی صدر سے پوچھا گیا کہ کیا وہ چاہتی ہیں کہ چین یورپی یونین اور دوسرے ممالک کے ساتھ مل کر اس بات کی تحقیقات کرے کہ وائرس کی شروعات کیسے ہوئی؟ تو ان کا کہنا تھا ’جی ہاں! یہ ہم سب کے لیے اہم ہے، میرا مطلب ہے یہ پوری دنیا کے لیے اہم ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’آپ کو پتہ نہیں ہوتا کہ کب اگلا وائرس پھیل جائے۔ اس لیے اگلی مرتبہ کے لیے ہم سب سبق سیکھیں اور جلدی وارننگ کا ایسا سسٹم بنائیں جو کہ فعال ہو اور پوری دنیا کو اس حوالے سے کردار ادا کرنا چاہیے۔‘
خیال رہے چین کورونا وائرس کے حوالے سے کسی بھی طرح کی بین الاقوامی تحقیقات کے خلاف ہے۔
اُرزُولا فان ڈیئر لاین نے کہا کہ وہ نہیں سمجھتیں کہ اس طرح کی تحریک یورپ اور چین کے درمیان تعلقات میں خرابی کا سبب بن سکتی ہے۔  'یہ ہمارے اپنے مفاد میں ہے۔‘
کورونا وائرس کس طرح انسانوں میں منتقل ہوا؟ یہ اس وبا کا سب سے متنازع سوال ہے۔
کچھ امریکی حکام اس خیال کی تائید کر رہے ہیں کہ کورونا وائرس کی ابتدا غیر ارادی طور پر ووہان کی ایک ریسرچ لیبارٹری سے ہوئی۔ تاہم بیشتر محققین کا کہنا ہے کہ ایسا ہونا بعید از قیاس ہے اور اس دعوے کی سپورٹ میں کوئی ثبوت نہیں۔
ادھر صدر ٹرمپ نے جمعرات کو کہا تھا کہ انہوں نے ایسے ثبوت دیکھے ہیں جو کہ 'لیب لیک تھیوری' کی توثیق کرتے ہیں۔

تحقیق کے مطابق شمالی نصف کرہ پر واقع ممالک میں سردیوں میں کورونا کے کیسز میں اضافہ ہوگا (فوٹو: سوشل میڈیا)

کورونا کی وبا مزید دو سال تک برقرار رہ سکتی ہے

نئی امریکی تحقیق کے مطابق کورونا وائرس کی وبا مزید دو سال تک  برقرار رہے گی جب تک کہ دو تہائی یا اس سے زیادہ آبادی کا مدافعتی نظام وبا سے مقابلہ کرنے کے قابل نہ ہو جائے۔
واشنگٹن پوسٹ کے مطابق یونیورسٹی آف مینیسوٹا کی حالیہ تحقیق  میں امریکی حکومت کو خبردار کیا گیا ہے کہ کورونا  کے کیسز میں کمی کے بعد سردیوں میں یکدم اضافہ ہوگا۔
یونیورسٹی کے بیماریوں پر تحقیقاتی سنٹر کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سردیوں میں کورونا کے متاثرین کی تعداد مریضوں کی موجودہ تعداد سے کہیں زیادہ ہوگی۔
شمالی نصف کرہ یا خط استوا سے شمال میں واقع ممالک میں سردیوں میں کورونا کے کیسز میں اضافہ ہوگا، جس کے بعد چھوٹے پیمانے پر کورونا  کے کیسز سامنے آئیں گے اور ہلاکتوں کا سلسلہ جاری رہے گا۔ 
تحقیق میں مزید بتایا گیا ہے کہ ویکسین متعارف کروانے سے بھی موجودہ منظر نامہ تبدیل نہیں ہوگا، ویکسین متعارف ہو بھی گئی تو استعمال کے لیے اتنی جلدی مہیا نہیں ہوگی۔

سائنسدانوں نے متنبہ کیا ہے کہ حکومتوں کو آئندہ 18 سے 24 ماہ تک کے لیے تیار رہنا چاہیے (فوٹو: سوشل میڈیا)

سائنسدانوں نے متنبہ کیا ہے کہ وبا جو بھی صورت اختیار کرے، حکومتوں کو آئندہ 18 سے 24 ماہ تک کے لیے کورونا سے نمٹنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
تحقیق کے مطابق کورونا پر قابو پانا مشکل ہے کیونکہ متاثرہ شخص میں وائرس کی علامات سامنے آنے سے پہلے ہی یہ وبا ارد گرد والے افراد میں پھیل چکی ہوتی ہے۔
محققین نے حکومتوں کو تجویز دی ہے کہ وہ بدترین حالات سے نمٹنے کی پلاننگ شروع کر دیں اور  طبی عملے کی حفاظت کو ترجیح دیں۔ ساتھ ہی میں کورونا سے جڑے خطرات کے حوالے سے واضح معلومات دیں اور پابندیوں کے حوالے سے منصوبہ بندی کر لیں
تحقیقاتی سنٹر کے ڈائریکٹر مائیک آسٹر ہولم نے امریکی نیوز چینل سی این این کو بتایا کہ تمام شواہد سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آئندہ آنے والے حالات سخت اور دیرپا ہوں گے۔

شیئر: