Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی خواتین کی تنظیموں نے کورونا کا مقابلہ کیسے کیا؟

رمضان شروع ہوتے ہی متعدد تنظیمیں فلاحی سرگرمیاں شروع کر دیتی ہیں۔ فوٹو اے ایف پی
اُنہیں کہا گیا کہ وہ باقی لوگوں کی طرح گھر پر رہیں اور آن لائن تعلیم حاصل کریں، مگر اُن کے پاس تو لیپ ٹاپ ہی نہیں تھے۔ تو پھر وہ کمپیوٹرز کے بغیر اپنے سکول کی آن لائن کلاسز میں کیسے شامل ہو سکتے تھے؟
عرب نیوز کے مطابق اس قسم کی صورتحال کا سامنا جنوبی جدہ کے متوسط خاندانوں کو ہے کیونکہ سعودی حکومت کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے احتیاطی تدابیر کے طور پر لاک ڈاؤن کرنے پر مجبور ہے۔
رمضان میں یہ صورتحال مزید گھمبیر ہو سکتی ہے کیونکہ مسلمانوں پر روزہ رکھنا فرض ہے لیکن سعودی خواتین کی تنظیمیں مدد کے لیے تیار ہیں۔
سعودی عرب میں خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے لمبے عرصے سے کام کرنے والی اور حال ہی میں تشکیل دی جانے والی تنظیمیں اس چیلنچ کا مقابلہ کرنے کے لیے اُٹھ کھڑی ہوئی ہیں۔
سعودی غیر سرکاری تنظیم ’الولا‘ کی چیف ایگزیکیٹو آفیسر دانیہ المعاینہ کا کہنا ہے کہ ’جنوبی جدہ میں رہنے والی فیملیز کو سعودی عرب میں سب سے پہلے لاک ڈاؤن کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ وہ ایک خطرے والے علاقے میں ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ رہتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا ’ہم نے ایک رضاکار گروپ 'خدوم' سے اشتراک کیا جو آن لائن تعلیم مہیا کرتا ہے۔ سینکڑوں سعودیوں نے اس مہم کی حمایت کی ہے اور 15 سے زیادہ کمپنیوں نے بچوں کے لیے لیپ ٹاپس، خوراک اور گیمز عطیہ کی ہیں۔‘
کووڈ 19 معاشرے کے ہر حصے کو متاثر کر رہا ہے اور جانی نقصان کے علاوہ معاشی اور سماجی مشکلات بھی بڑھی ہیں۔
اگرچہ وائرس نے رُتبہ، دولت، نسل اور عقیدہ دیکھے بغیر سب کومتاثر کیا ہے  لیکن کمزور اور غریب طبقہ اس سے بہت زیادہ متاثر ہوا ہے۔
عالمی وبا نے دنیا کے دیگر حصوں کی طرح جی سی سی ممالک کو بھی مجبور کیا ہے کہ وہ اپنے تمام وسائل وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے اور متاثرین کی دیکھ بھال پر لگا دیں۔

 ایک نوجوان لڑکا نیا لیپ ٹاپ ملنے کے بعد مسکرا رہا ہے (فوٹو: الولا)

کورونا وائرس کے طوفان کے ٹکرانے سے پہلے جی سی سی ممالک، بہت ساری وجوہات کے باعث، پبلک اور پرائیویٹ سیکٹرز کی افرادی قوت میں خواتین کے حصے کو بڑھانے پر غور کر رہے تھے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق عالمی سطح پر کورونا وائرس کے خلاف فرنٹ لائن پر کام کرنے والوں میں سے 70 فیصد خواتین ہیں۔
ریاض میں خواتین کی ایک اور تنظیم ’الناہدہ سوسائٹی فار ویمن‘، جو 1962 سے ایسی خواتین کے لیے کا م کر رہی ہے جو خطرے میں ہیں یا وہ جو متوسط طبقے سے تعلق رکھتی ہیں، کی سی ای او راشہ الترکی نے کہا ’خواتین خیال رکھنے والی ہوتی ہیں، لہٰذا وہ اس وبا سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہی ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا ’اگرچہ سعودی خواتین کی فرنٹ لائن پر شرح ہوسکتا ہے کچھ کم ہو، لیکن پھر بھی ہم گھر، دفتر اور میڈیکل فیلڈ میں دیکھ بھال کر کے اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔‘
رواں برس راشہ الترکی کی تنظیم ’الناہدہ‘ کو ایک شاہی فرمان کے ذریعے ڈبلیو 20، سرکاری جی 20 انگیجمنٹ گروپ جو خواتین کے ایشوز کے لیے وقف ہے، کی رہنمائی کرنے کا موقع دیا گیا۔
راشہ الترکی نے کہا کہ ڈبلیو 20 نے سعودی قیادت میں اپنی سرگرمیوں کا آغاز رواں برس جنوری میں کیا اور پورا سال میٹنگز منعقد کیں اور دیگر معاملات میں مدد کی۔ ان ایونٹس کا اختتام اکتوبر میں ریاض کے اندر ہونے ڈبلیو 20 سمٹ میں ہوگا۔

خواتین کی ایک دوسری تنظیم ’الولا‘ کی سربراہ دانیہ المعاینہ کو بچوں کے ساتھ دیکھا جا سکتا ہے (فوٹو: الولا)

خواتین کی ایک دوسری تنظیم ’الولا‘ کی سربراہ دانیہ المعاینہ نے کہا کہ ان کی تنظیم نے سعودی عرب میں کورونا وائرس پھیلنے کے آغاز میں ایک مہم ’الناس لیبعید‘ (لوگ ایک دوسرے کے لیے ہیں) شروع کی۔
انہوں نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’ہم نے آٹھ سو خاندانوں اور چار ہزار مستحقین کی مدد کا ٹارگٹ سیٹ کیا ہے جس میں انہیں خوراخ کی ٹوکریاں دی جائیں گی جن میں پانی، کھجوریں، ایلومینیم کے ڈبوں میں بند فوڈ اور ریستورانوں کی جانب سے دیا گیا فوڈ شامل کیا گیا، ہے اور اس کے علاوہ بچوں کے لیے کھلونے بھی رکھے گئے ہیں۔‘
ان کا یہ بھی کہنا تھا ’ہم نے وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے خود کو صاف ستھرا رکھنے کے طریقے سکھانے کے لیے آن لائن کورسز بھی شروع کیے تھے۔‘
جنوبی جدہ میں رہنے والی فیملیز کی مدد کے لیے خواتین کے ایک گروپ کی طرف سے تشکیل دی جانے والی اور سعودی منسٹری آف لیبر اینڈ سوشل ورک سے رجسٹر شدہ تنطیم ’الولا‘ کے بانیوں نے جب بھی ضرورت پڑی لوگوں کی مدد کی۔ کورونا وائرس کی وبا کے خلاف بھی اس  کی سرگرمیاں دیکھی جا سکتی ہے۔
دانیہ المعاینہ نے کہا ’الولا کے بانیوں کے پاس پچھلے وقتوں میں ٹیلیفون نہیں تھا۔ انہیں میٹنگ کرکے فیصلہ کرنا پڑتا کہ لوگوں کی مدد کیسے کی جائے۔‘

’ ’خواتین قدرتی طور پر خیال رکھنے والی ہوتی ہیں۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)

ایسے وقت میں جب سعودی حکومت مملکت کے قیام سے لے کر اب تک سب سے بڑے پبلک ہیلتھ چیلنچ کا سامنا ہے، الولا نامی تنظیم نے چار ہزار لوگوں اور ایک ہزار سے زائد خاندانوں کی مدد کی ہے۔
سعودی اے ڈی ایچ ڈی سوسائٹی میں کام کرنے والی فیسشن ڈیزائنر حونائدہ صرافی کا کہنا ہے کہ ’خواتین قدرتی طور پر خیال رکھنے والی ہوتی ہیں لیکن مشکل کی اس گھڑی میں سعودی خواتین مصیبت زدہ لوگوں کی مدد کے لیے اکٹھی ہو گئی ہیں۔‘
حونائدہ صرافی لبنان میں ایک فیشن برانڈ کی مالک ہونے کے ناطے سے اچھی طرح جانتی ہیں کہ خواتین کس تکلیف سے گزر رہی ہیں، ان کا تعلق ایسے ملک سے ہے جو چاروں اطراف سے چیلنجز میں گھرا ہوا ہے، جو کورونا وائرس، معاشی بد حالی اور گذشتہ اکتوبر سے سیاسی عدم استحقام کا شکار ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ کورونا وائرس بحران کے دوران لبنان میں ایک سو فیملیز کے لیے کھانا مہیا کر رہی ہیں۔ ’ہم اس وقت میں ضرورت مندوں کے لیے امید پیدا کرنا چاہتے ہیں۔‘
سعودی اے ڈی ایچ ڈی سوسائٹی کی چیئرمین شہزادی نوؤف بنت محمد بن عبداللہ السعود ہیں جنہوں نے اپنے پروگرام (اٹینشن ڈیفیسٹ ہائپر ایکٹیوٹی ڈس آرڈر) کو موجودہ حالات کے پیش نظر آن لائن پلیٹ فارمز کے لیے مرتب کیا ہے۔
تنظیم نے سپیشلائزڈ لیکچر سیریز تیار کی ہے جس میں نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو بتایا گیا ہے کہ وہ موجودہ حالات کا مقابلہ کیسے کر سکتے ہیں۔
حونائدہ صرافی نے کہا ’ہم نے قریب ایک سو کونسلنگ سیشنز کیے ہیں اور تنظیم کو مدد کے لیے اور بھی لوگوں کی طرف سے کالز آ رہی ہیں۔‘
راشہ الترکی نے کہا کہ ان کی تنظیم میں خواتین سٹاف کو بھی لاک ڈاؤن کے شروع میں کچھ ایسی ہی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔ ’ہماری سوشل ورکرز کو رات 11 بجے سے لے کر پوری رات کالز آتی رہیں۔‘

راشہ الترکی کے مطابق خواتین بہت سارے مسائل میں الجھی ہوئی ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

’خواتین ازداجی زندگی، نیند کے مسائل، قانونی اور کرائے کے مسائل، آمدن نہ ہونے، پانی اور خوراک تک رسائی نہ ہونے اور گھر میں بچوں کو پڑھانے جیسے مسائل میں گھری ہوئی ہیں۔‘
راشہ الترکی نے کہا ’تصور کریں کہ اگر آپ کو چار بچوں اور بوڑھے والدین کی دیکھ بھال کرنا پڑے، اور گھر میں خاوند بھی ہے جس کے پاس کام نہیں رہا۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’خواتین پر بہت زیادہ دباؤ ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ان کی تنظیم نچلی سطح پر مدد، ریسرچ اور فیلڈ ورک، اور ایڈوکیسی میں مہارت رکھتی ہے جو یہ سمجھنے کے لیے ایک کنجی کی حیثیت رکھتی ہے کہ یہ حالات خواتین کو کس طرح متاثر کر رہے ہیں۔
اس کے علاؤو اس تنظیم نے ضرورت مند بچوں میں 600 لیپ ٹاپس کی تقسیم کی نگرانی کی ہے اور جن خواتین کو ماسک، سینیٹائزرز اور معاشی ضرورت تھی ان کا رابطہ خیراتی اداروں کے ساتھ کروایا ہے۔
سعودی عرب میں الخبر میں ’فتات الخلیج‘ نامی خیراتی ادارہ بھی کچھ اسی قسم کی خدمات مہیا کر رہا ہے جس کی بنیاد 1968 میں رکھی گئی تھی۔
اس ادرے کی سی ای او ابتسام عبداللہ الجبیر نے کہا ’ہم نے اپنے آرفن سپانسر شپ پروگرام سے فائدہ اٹھانے والوں کے درمیان حفاظتی سامان تقسیم کیا ہے، اور اس کے علاوہ ہم 173 فیملیز کو فی کس دو سو سعودی ریال بھی ٹرانسفر کر رہے ہیں۔‘
انہوں کہا کہ ان کا ادرہ ایک ہزار فیملیز کو روزانہ خوراک کی ٹوکریاں پہنچا رہا ہے اور آن لائن سروسز بھی مہیا کر رہا ہے۔

خواتین کی تنظیم ’الولا‘ نے سعودی عرب میں مہم ’الناس لیبعید‘ کا آغاز کیا ہے۔ فوٹو عرب نیوز

رمضان کا مہینہ شروع ہوتے ہی غیرسرکاری تنظیمیں اور خیراتی ادارے عام طور سعودی عرب میں اپنی سرگرمیاں شروع کر دیتے ہیں۔
رواں برس کورونا وائرس نے ’الولا‘، ’الناہدہ اور فتات الخلیج جیسی تنظیموں کے لیے ایک غیر متوقع چیلنج کھڑا کر دیا۔
لیکن اگر ان کے ٹریک ریکارڈ کو دیکھا جائے تو انہوں نے ضعیفوں کی مدد، کھانے پینے کی اشیا مہیا کرنے اور لوگوں کو نفسیاتی مدد دینے تک سب کام کیے ہیں۔
حونائدہ صرافی نے کہا ’اگرچہ کورونا وائرس کو روکنا مشکل ہے لیکن ایک دن یہ ختم ہوجائے گا۔ ایک چیز جو کبھی نہیں ختم ہوگی اور وہ ہے خیرات، پیار اور ضرورت مندوں کی مدد کرنا۔‘
  • واٹس ایپ پر سعودی عرب کی خبروں کے لیے ”اردو نیوز“ گروپ جوائن کریں

شیئر: