Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سانپ سیڑھی کا کھیل

ہر پاکستانی کی طرح آپ نے بھی زندگی میں سینکڑوں بار لُڈو کھیلی ہوگی۔ خصوصاً جب سے دنیا نے سماجی فاصلہ اختیار کر رکھا ہے، تب سے ان بورڈ گیمز کو دوبارہ خوب پذیرائی مل رہی ہے۔ دکانداروں کے مطابق آج کل لُڈو تو ہاتھوں ہاتھ بک رہی ہے۔
لڈو کے شوقین میں سے اکثریت کے پاس وہ والا بورڈ ہوتا ہے جس کو اگر پلٹا لیا جائے تو دوسری طرف ’سانپ سیڑھی‘ بھی کھیلا جا سکتا ہے۔ یوں ایک ہی قیمت میں دو، دو کھیل کے مزے۔ سانپ سیڑھی کا کھیل لگتا ویسے کافی بچگانہ ہے، لیکن اگر سیاست سے اس کی مماثلت پر غور کیا جائے تو انداذہ ہوتا ہے کہ یہ کھیل اتنا سادہ بھی نہیں ہے۔
اب ذرا یاد کیجیے کہ ایک برس پہلے، اپریل کے مہینے میں کس طرح اسد عمر کو وزارت سے اچانک فارغ کرکے میڈیا کے بھوکے شیروں کے سامنے تن تنہا چھوڑ دیا گیا تھا۔ اس وقت کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا کہ ایک سال بعد  وہی اسد عمر وفاقی حکومت میں بھرپور اختیارات کے ساتھ دوبارہ لوٹیں گے۔

 

کورونا کے خلاف وفاقی حکومت کا رسپانس ہو یا اپوزیشن کے ساتھ نیب قوانین اور اٹھارویں ترمیم میں ترمیم پر ممکنہ اتفاق رائے قائم کرنے کا ٹاسک، اس وقت اسد عمر  پی ٹی آئی کا سیاسی اور انتظامی چہرہ بن کر ابھرے ہیں۔ ماننا پڑے گا کہ اتنے کم وقت میں، اس قدر جاندار سیاسی کم بیک شاید ہی کسی اور سیاستدان کا ہوا ہو۔
اسد عمر ایک ہی وقت میں خان صاحب اور اسٹیبلشمنٹ دونوں کا بھروسہ دوبارہ جیتنے میں کامیاب ہوئے اور جس جان فشانی سے وہ آج کل کام کرتے دکھائی دے رہے ہیں، ان کی اپنی جماعت اور اپوزیشن کے دوستوں کو شائبہ ہوتا ہے کہ کہیں یہ تمام ریاضت وزارت عظمیٰ کی نیٹ پریکٹس تو نہیں۔
دوسری طرف سانپ سیڑھی کے کھیل میں، ایک سال پہلے جس جہانگیر ترین کا طوطی بولا کرتا تھا، وہ اب وزیراعظم ہاؤس سے کوسوں دور نظر آتے ہیں۔
لیکن کوئی بعید نہیں کہ آج سے ایک سال بعد یہ بساط  دوبارہ مکمل طور پر تبدیل ہو جائے۔ آج جو قابل قبول ہے، ان کو پذیرائی نہ حاصل رہے، نئےکھلاڑی میدان میں نظر آ جائیں یا منزل کے بہت قریب پہنچ کر کوئی خوفناک اژدہا کسی کو ڈس کر کھیل کے  پاتال میں پہنچا دے، آخر سیاست میں تو کچھ بھی خارج از امکان نہیں۔
ویسے بھی جو لوگ میڈیا میں جماعت کی موثر نمائندگی کر سکیں  وہ ہمیشہ سے خان صاحب کو پسند رہے ہیں ۔ خان صاحب کو چونکہ کم و بیش اپنے سارے ہی سیاسی کیرئیر میں میڈیا میں پذیرائی ملتی رہی ہے،  اس لیے سوشل میڈیا اور میڈیا کی نبض پر ہاتھ رکھ کر فیصلہ کرنے کی عادت موجودہ گورننس میں بھی حائل ہو رہی ہے۔

اسد عمر خان صاحب اور اسٹیبلشمنٹ دونوں کا بھروسہ دوبارہ جیتنے میں کامیاب ہوئے (فوٹو: اے ایف پی)

گورننس کرنا کوئی مقبولیت کا مقابلہ یا پاپولریٹی کانٹیسٹ نہیں ہوتا، حکومتوں کو غیر مقبول فیصلے کرنے پڑتے ہیں اور ان پر چاندی کے ورق چڑھا کر قابل قبول بھی بنانا پڑتا ہے۔
موجودہ کرائسس میں، پیپلز پارٹی کی تازہ تازہ گُڈ وِل ہی وفاق اور سندھ میں اس وقت تناؤ کی ایک بڑی وجہ ہے۔ سندھ حکومت خود بھی کچھ معاملات پر اپنی فیصلوں کی پزیرائی دیکھ کر ششدر ہے۔ پیپلز پارٹی کو میڈیا میں اچھی کوریج کی عادت نہیں اور تحریک انصاف کو فیصلوں پر تنقید کی۔ اسی وجہ سے دونوں میں خوب ٹھنی ہوئی ہے۔
ڈھائی ماہ ہونے کو ہیں اور یہ آگ ٹھنڈی ہونے کی بجائے مزید بھڑکتی جا رہی ہے۔ روزانہ جتنا وقت دونوں کا شکوہ جواب شکوہ سننے کو ملتا ہے، وہ کسی تعمیری کام میں صرف کیا جاتا سکتاہے۔
سچ تو یہ ہے کہ اب یہ الزامات کی پرانی گھسی ہوئی ٹیپ کی طرح لگتے ہیں، اگر کرونا جیسی آفت بھی کوارڈینیشن قائم نہیں کر پا رہی تو نجانے کس چیز کا انتظار ہے۔
وفاقی حکومت نے اسی امیج مینجمنٹ کے لیے اپنی وزارت اطلاعات میں دوسری بار تبدیلی کر کے نئے گھوڑے میدان میں اتارے ہیں۔ البتہ اگر انصاف پر بات کریں تو سابق مشیر اطلاعت  کی تبدیلی کا فیصلہ نوشتہ دیوار تھا اور ان کا جتنا بھی وقت تھا وہ ادھار پر ہی گزر رہا تھا۔
اب کی بار، شبلی فراز اور عاصم باجوہ کی جوڑی بنا کر ایک نیا تجربہ کیا جا رہا ہے، شبلی فراز ویسے تو بہت بھلے انسان ہیں، اپنے رکھ رکھاؤ اور احمد فراز سے نسبت کی بدولت ان کے صحافیوں سےتعلقات بھی بہت اچھے ہیں۔ تھوڑا سا غصہ کھا جاتے ہیں لیکن اس میں بھی تہذیب و تمدن کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے تبھی ان کی تقرری کا فیصلہ ہر طرف سے سراہا جا رہا ہے۔

’شبلی فراز  کی تقرری سے لگتا ہے کہ اب حکومت سب کو ساتھ لیکر چلنا چاہتی ہے‘ (فوٹو: پی آئی ڈی)

 ان کی تقرری سے بظاہر تو یوں لگتا ہے کہ اب حکومت سب کو ساتھ لیکر چلنا چاہتی ہے لیکن  وزیراعظم کا یہ مفاہمانہ موڈ کب تک قائم رہے گا اس کا کوئی اندازہ نہیں۔
 نیز جس طرح کا جارحانہ لہجہ خان صاحب اپنے وزرا اور ترجمانوں میں پسند کرتے ہیں کیا وہ فرزندِ فراز سے ہو پائے گا؟ بظاہر اس کا جواب ’نہیں‘ ہی لگتا ہے ۔ اس ک ایک عملی نمونہ سامنے بھی آگیا ہے۔ گذشتہ دو دن سے پیپلز پارٹی کی  فرنٹ فٹ پر کھیلنے والی  پریس کانفرنسز کے ردعمل میں وزارت اطلاعات کی جانب سے نپا تلا محتاط  جواب دیا گیا ہے۔
اس ٹیم کے دوسرے رکن لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عاصم باجوہ ہیں، سانپ سیڑھی کے کھیل میں یہ بھی مختلف منازل عبورکر کے یہاں تک پہنچے ہیں۔
اس سے پہلے جنرل صاحب کو آئی ایس پی آر چلانے کا مکمل اختیار اور فری ہینڈ تھا جس سے انہوں نے اپنے ادارے کے لیے خاطر خواہ نتائج بھی حاصل کر لیے تھے۔

شبلی فراز کی بطور حقیقی چہرہ واپسی کا کریڈٹ لینے والے عاصم باجوہ پر البتہ دم سادھ لیتے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

جاتے جاتےفردوس آپا، وزارت اطلاعات کا  جو نوحہ پڑھ کر گئی ہیں کہ کس طرح کئی غیر رسمی ترجمان اورمشیران کی دخل اندازی ہے۔ اس سیٹ اپ میں  جنرل صاحب کیا کر پاتے ہیں، یہ دیکھنا ابھی باقی ہے جبکہ سی پیک کی ذمہ داری بدستور انہی کے کندھوں پر ہے ۔
تحریک انصاف کے خیر خواہ البتہ اسے پارٹی کے حقیقی چہروں کی واپسی کا نام دیتے ہیں۔
تبدیلی کے خواہاں خان صاحب، اپنی پارٹی کے اندر ہی اس سلوگن کا فراخدلی سے استعمال کرتے ہیں۔ شبلی فراز کی بطور حقیقی چہرہ واپسی کا کریڈٹ لینے والے عاصم باجوہ پر البتہ دم سادھ لیتے ہیں۔ عاصم باجوہ کی انڑی کے بعد حکومت میں ایک اور ایسے چہرے کا اضافہ ہوا ہے جو پالیسی سازی کاحصہ تو ہوگا لیکن پاکستان تحریک انصاف  کا نہیں۔
اور شاید یہی تحریک انصاف کا سب سے بڑا المیہ ہے۔
  • واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: