Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کارروائی کے باوجود چینی کی قیمت میں کمی کیوں نہیں؟

مسابقتی کمیشن نے شوگر ملوں کی قیمتوں کی من مانی پر کوئی ایکشن نہیں لیا۔ فوٹو: ٹوئٹر
اسلام آباد ہائی کورٹ نے جمعرات کو شوگر ملز مالکان کو چینی 70 روپے فی کلو فروخت کرنے کا حکم جاری کیا جب کہ ہر گھر کی بنیادی ضرورتوں میں شمار کی جانے والی چینی پاکستان میں عام مارکیٹ میں 85 سے نوے روپے فی کلو ہی فروخت ہو رہی ہے۔
حکومت کی اس سال شوگر مافیا کے خلاف سرگرمی اور کیسز تحقیقاتی اداروں کو بھیجے جانے کے باجود چینی کی قیمتیں مارکیٹ میں کم کیوں نہیں ہو رہی ہیں؟ گنے کے کاشتکار قصوروار ہیں، طاقتور شوگر مل مالکان یا پھر حکومتی ادارے جنہوں نے قیمتوں کا تعین اور اس پر عمل درآمد کرنا ہوتا ہے؟
اگر اس سلسلے میں ماضی کی تحقیقاتی رپورٹس اور حکومتی اداروں کی سفارشات کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ گنے کی امدادی قیمت کے تعین اور چینی کی درآمد پر پابندی جیسے اقدامات کی وجہ سے شوگر انڈسٹری کو حکومتی تحفظ  حاصل ہے۔ جس کے باعث مارکیٹ میں طلب و رسد کے اصول کے تحت چینی کی قیمت کا تعین مشکل ہو جاتا ہے۔
دوسری طرف شوگر ملوں کے مالکان اتنے بااثر ہیں اور کارٹلز کی طرح ایک دوسرے کا ایسے تحفظ کرتے ہیں کہ ان کے سامنے کسی کی نہیں چلتی۔
شوگر ملز مالکان کا کہنا ہے کہ ملک میں چینی کی پیداوار کا صرف 30 فیصد عام آدمی کے لیے مارکیٹ میں فروخت کیا جاتا ہے جبکہ باقی 70 فیصد انڈسٹری کو بیچ دیا جاتا ہے۔
یاد رہے کہ شوگر کی پراڈکٹ سے چلنے والی انڈسٹری کے چند مالکان میں بھی وہی افراد ہیں جن کی چینی کی ملیں ہیں۔

چینی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ

پاکستان میں گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران چینی کی مارکیٹ قیمت میں 50 فیصد سے زائد کا اضافہ دیکھا گیا ہے۔

شوگر ملز ایسوسی ایشن نے کمیشن کی رپورٹ کو عدالت میں چیلینج کیا۔ (فوٹو: فیس بک)

جو چینی دسمبر 2018 میں مارکیٹ میں  55.99 روپے کلو فروخت ہو رہی تھی اب 85 روپے تک پہنچ چکی ہے جبکہ حکومت کے شوگر کمیشن کے مطابق چینی کی قیمت مل ریٹ پر 63 روپے فی کلو ہونی چاہیے جو مارکیٹ میں چند روپے زیادہ پر فروخت کی جا سکتی ہے۔
تاہم حیرت انگیز طور پر یوٹیلیٹی سٹورز کی دستاویزات کے مطابق رواں  سال حکومت مل مالکان سے 79.50 روپے کلو کے حساب سے چینی یوٹیلیٹی سٹورز کے لیے خریدتی رہی تاکہ عوام کو 68 روپے کلو بیچی جا سکے اور اس مقصد کے لیے اضافی رقم سبسڈی کی مد میں قومی خزانے سے ادا کی گئی۔

 حالیہ حکومتی کارروائی اور سفارشات

وفاقی حکومت نے گزشتہ سال کے آخر اور رواں سال کے شروع میں چینی کی بڑھتی قیمتوں پر نوٹس لے کر ایک تحقیقاتی کمیشن بنا دیا تھا۔
کمیشن نے 21 مئی کی اپنی رپورٹ میں جہانگیر ترین اور حکومت میں شامل افراد سمیت چینی ملوں کے مالکان کو ناجائز منافع خوری اور حکومتی اداروں کو نااہلی میں کا قصوروار ٹھہرایا تھا. تاہم شوگر ملز ایسوسی ایشن نے اس رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ میں اس کے خلاف درخواست دائر کر دی۔
جمعرات کو اس درخواست کی سماعت کے دوران چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ انکوائری کمیشن عام آدمی کے لیے بنا تھا تاہم اس سوال کا جواب نہیں دیا گیا چینی ایک مزدور کی ضرورت ہے اور (حکومت) کوکا کولا پر سبسڈی دے رہے ہیں۔
شوگر ملز مالکان کا کہنا ہے کہ ملک میں چینی کی پیداوار کا صرف 30 فیصد عام آدمی کے لیے مارکیٹ میں فروخت کیا جاتا ہے جب کہ باقی 70 فیصد انڈسٹری کو بیچ دیا جاتا ہے۔

چینی کی قیمت مل ریٹ پر 63 روپے فی کلو ہونی چاہیے۔ فوٹو: اے پی

مل مالکان لاگت بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں اور ملی بھگت میں ملوث ہیں: شوگر کمیشن

وزیراعظم کی جانب سے قائم کیے گئے شوگر انکوائری کمیشن کے مطابق پاکستان میں چھ گروپس چینی کی پیداوار کا 51 فیصد پیدا کرتے ہیں۔ یہ سیاسی اثر رسوخ والے مل مالکان جن میں پی ٹی آئی کے سینئر رہنما جہانگیر ترین، وفاقی وزیر خسرو بختیار، سابق وزیراعظم نواز شریف کا خاندان، پیپلز پارٹی کی قیادت کے قریب سمجھا جانے والا اومنی گروپ اور دیگر شامل ہیں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر مارکیٹ کو کنٹرول کرتے ہیں اور حکومتی پالیسی اور انتظامی امور پر اثرانداز ہوتے ہیں۔۔
شوگر کمیشن کے مطابق چینی مل مالکان لاگت بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔ گنے کی قیمت گزشتہ پانچ سالوں میں صرف دس روپے فی چالیس کلو بڑھی ہے اور وہ 180 روپے من سے 190 روپے ہو گئی جبکہ گزشتہ سال انہوں نے کاشتکاروں سے حکومتی امدادی قیمت 190 روپے فی من کے بجائے سستے داموں گنا خریدا۔
تاہم پچھلے سال گنے کی کم پیداوار کے باعث بعض کاشتکاروں نے 220 روپے من بھی گنا بیچا لیکن اس حساب سے بھی چینی کی قیمت مل ریٹ پر 63 روپے ہی بنتی ہے جبکہ 190 روپے من کا حساب کیا جائے تو چینی کی قیمت 57.59 ہونی چاہیے۔
کمیشن کے مطابق بعض مل مالکان نہ صرف کسانوں کو گنے کی کم قیمت دیتے ہیں بلکہ ان کے وزن کا تخمینہ بھی کم لگا کر اپنا خرچ بچا لیتے ہیں اور اس طرح کی خریداری کو ریکارڈ میں لائے بغیر اس سے چینی بنا لیتے ہیں اور بیچ بھی دیتے ہیں۔

گزشتہ ڈیڑھ سال میں چینی کی قیمت میں 50 فیصد سے زائد اضافہ ہوا۔ فوٹو: پکسابے

تاہم حکومت کو صرف ریکارڈ بک میں موجود چینی کا حساب بتا کر نہ صرف ٹیکس بچاتے ہیں بلکہ اس اندرون کھاتہ مزدوری اور بجلی وغیرہ کے اخراجات کو بھی اپنی ریکارڈ بک والی چینی کی لاگت میں شامل دکھا کر چینی کی قیمت مہنگی کر دیتے ہیں۔ 
کمیشن کے مطابق ملیں گنے سے چینی کے علاوہ حاصل ہونے والے خام مال اور محصولات کے غلط تخمینے کے ذریعے لاگت کی قیمت بڑھا کر پیش کرتے ہیں تاکہ مہنگی چینی بیچ سکیں۔ جو مزدور اور مشینیں گنے سے چینی کے علاوہ دیگر سامان بناتے ہیں ان کی تنخواہیں اور اخراجات  بھی چینی کے پیداواری خرچے میں ڈال کر لاگت زیادہ دکھائی جاتی ہے جو بین الاقوامی فنانشنل رپورٹنگ کے معیار (آئی ایف آر ایس) کے برعکس ہے۔
کمیشن کے مطابق اپنی لاگت غلط بتا کر گزشتہ سال صرف چھ  شوگر مل مالکان نے 53 ارب روپے کا منافع کمایا جس پر لاگو ٹیکس کم از کم 18 ارب روپے بنتا تھا جو قومی خزانے کو نہ مل سکا۔
کمیشن کے مطابق متعلقہ قانون کمپنیز ایکٹ 2017 میں ترمیم کے ذریعے ملوں کی لاگت کا آڈٹ ختم کر دیا اور انہیں من مانی لاگت دکھانے کا موقع مل گیا۔

گنے کی قیمت اور ٹیکس کی وجہ سے قیمت بڑھی: مل مالکان

دوسری طرف پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن (پی ایس ایم اے) کے ایک ترجمان نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے  کمیشن کی رپورٹ کو ردی کا ٹکڑا قرار دیا اور اس میں لگائے گئے تمام الزامات کو مسترد کر دیا۔

گزشتہ سال ملوں نے گنا 240 سے 250 روپے فی کلو بھی خریدا۔ فوٹو اے ایف پی

ایک شوگر مل کے مالک جو اس سے قبل میڈیا سے گفتگو کرتے رہتے ہیں نے اپنا نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر اردو نیوز سے گفتگو کی کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ تمام مل مالکان نے عدالت میں جانے سے قبل تہیہ کیا تھا کہ وہ میڈیا میں بیان جاری نہیں کریں گے۔ ’میڈیا، کمیشن سب ہمیں مافیا سمجھتے ہیں ہم تھک گئے ہیں ہم کس کس کو حساب دیں۔
 بزرگ مل مالک کا کہنا تھا کہ سب کی توجہ چینی کی صنعت پر ہے۔ ’میری گھی کی بھی مل ہے میں وہاں سے زیادہ منافع کماتا ہوں مگر وہاں نہ میڈیا جاتا ہے نہ کمیشن۔‘
ان کا کہنا تھا کہ چینی کی قیمت بڑھنے کی وجہ گنے کی بڑھتی ہوئی قیمت اور حکومت کی طرف سے سیلز ٹیکس میں اضافہ ہے۔ گزشتہ سال ملوں نے گنا 240 سے 250 روپے فی کلو بھی خریدا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ 2017 میں چینی سستی نہیں پڑی تھی دراصل ملوں نے اپنی لاگت سے بھی کم قیمت پر چینی بیچی تھی کیونکہ پیداوار ملکی ضرورت سے زیادہ تھی اور اس وقت مسلم لیگ نواز کی حکومت نے برآمد کی اجازت نہیں دی تھی تو خراب ہونے کے ڈر سے چینی سستی بیچی گئی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ مل مالکان تو نقصان میں جا رہے ہیں۔ جب ان سے کہا گیا کہ کیا وجہ ہے کہ شوگر مل مالکان نقصان میں ہونے کے باجود ذاتی طیارے خرید لیتے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ جن کا جہاز ہے انہوں نے بینکوں کا 40 ارب روپے قرضہ دینا ہے۔ یہ لوگ خود کماتے ہیں خود کھاتے ہیں کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے۔
انہوں نے ایک اور سوال کے جواب میں کہا کہ وہ ذاتی طور پر عوام کو 70 روپے کلو چینی نہیں بیچ سکتے کیونکہ ان کو 75 سے 78 روپے فیکٹری ریٹ پڑتی ہے۔

 پنجاب میں گنے پر لاگت 140 جبکہ سندھ میں 200 روپے تھی۔ فوٹو اے ایف پی

انہوں نے یہ بھی دعوی کیا کہ کاشتکار زیادہ منافع کما رہے ہیں اس لیے قیمت بڑھی ہے۔
انہوں نے الزامات لگانے والوں کو چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ وہ ملوں کو بند کر دیں اور چینی انڈیا اور تھائی لینڈ سے درآمد کر کے دیکھ لیں۔ ’ہماری صنعت لوگوں کو روزگار فراہم کر رہی ہے۔ سب اسی کے پیچھے پڑ گئے ہیں۔‘

مل والوں کے لیے چینی نرا منافع ہے: کسان اتحاد

اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے پاکستان کسان اتحاد کے ممبر اور سابق صدر طارق محمود کا کہنا تھا کہ چینی کی بڑھتی ہوئی قیمت میں کسانوں کا بس اتنا قصور ہے کہ وہ گنا کاشت کرتے ہیں اور مل مالکان کو بیچ دیتے ہیں۔
انہوں نے دعوی کیا کہ شوگر ملز کے مالکان گنے سے بننے والی دیگر مصنوعات جیسے مولاسز، بگاس ایتھانول وغیرہ سے اس کی لاگتی قیمت پوری کر لیتے ہیں اور جو چینی بنتی ہے وہ نرا منافع ہے۔ 
تاہم انہوں نے تسلیم کیا کہ گزشتہ سال کسانوں کو گنے کی قیمت حکومت کی امدادی قیمت سے بھی زیادہ ملی اور بعض کسانوں نے گنا 200 سے 220 روپے من بھی شوگر ملز کو بیچا۔
ان کا کہنا تھا کہ کسان اپنی محنت کے پیسے بھی مشکل سے وصول کرتا ہے اس لیے چینی کی بڑھتی قیمت پر اسے قصوروار نہیں گردانا جا سکتا۔
انہوں نے شوگر کمیشن کی تحقیقات سے اتفاق کیا۔ کمیشن نے کسانوں کی گنے پر لاگت پنجاب میں 140 سے سندھ 200 روپے من تک تسلیم کی ۔

حکومتی ادارے کیا کر رہے ہیں؟

شوگر کمیشن کی اپنی تحقیقات کے مطابق متعدد حکومتی ادارے چینی کی صنعت کی نگرانی پر مامور ہیں جن میں متعلقہ اضلاغ میں کین کمشنر جو گنے کی پیداوار اور کسانوں کو بروقت ادائیگی یقینی بنانے پر مامور ہیں، ضلعی کمشنر جو پیداوار کے معاملات اور سپلائی کو دیکھتے ہیں، ایف بی آر جو ٹیکس وغیرہ کا آڈٹ کرتے ہیں یہ تمام اپنی ذمہ داریوں سے غافل پائے گئے۔

عدالت نے چینی 70 روپے کلو فروخت کرنے کا حکم دیا ہے۔ فوٹو اے ایف پی

اسی طرح وزارت صنعت و پیداوار، ایس ای سی پی, مسابقتی کمیشن اور سٹیٹ بینک آف پاکستان جو بڑے صنعتکاروں کے مالی معاملات وغیرہ کی نگرانی کے ذمہ دار تھے سب نے کوتاہی برتی۔

مسابقتی کمیشن کی صنعت کو حکومتی تحفظ سے نکالنے کی سفارش

 حکومتی ادارے مسابقتی کمیشن پاکستان جس کا کام ملک میں مقابلے کی فضا قائم کرنا اور بڑی کاروباری گروہوں کے ایکے ( کارٹلائزیشن) کے ذریعے صارف کے استحصال کو روکنا ہے نے سالوں قبل یہ سفارش کی تھی کہ چینی کی صنعت کو حکومت اپنے تحفظ سے نکالے تاکہ مل مالکان کی من مانی اور ایکے کا سدباب کیا جا سکے تاہم اس کی سفارش پر عمل نہیں کیا گیا۔
اردو نیوز کو دستیاب  2009 کی ایک دستاویز کے مطابق مسابقتی کمیشن نے سفارش کی تھی حکومت شوگر انڈسٹری کو اوپن کر دے اور اس کی درآمد اور برآمد پر کوئی پابندی عائد نہ کی جائے تاکہ مارکیٹ کی قوتیں قیمتوں کو قابو میں رکھ سکیں۔
 کمیشن نے یہ سفارش بھی کی تھی کہ گنے کی امدادی قیمت  نہ رکھی جائے اور اگر رکھی جائے وزن کے بجائے اس کے اندر شکر کی مقدار کے حساب سے مقرر کی جائے اور اس کے علاوہ دوسری فصلوں جیسے کاٹن وغیرہ کو ذہن میں رکھ کر پالیسی بنائی جائے تاکہ ہر کوئی گنا اگانے کے بجائے ایسی فصلے بھی اگائے جن کی ملک کو ضرورت ہے اور جن کے لیے پانی کی کھپت کم ہوتی ہے۔
ایک اور دستاویز کے مطابق 2009 میں مسابقتی کمیشن نے اپنی انکوائری رپورٹ میں کہا تھا کہ شوگر انڈسٹری مقابلے اور مسابقت کی فضا پر چلنے کے بجائے پی ایس ایم اے کے زریعے ایک بند اور محفوظ مارکیٹ کو ترجیح دے رہی ہے۔ اور پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن ایک کارٹل بنا کر اور ایکا کر کے چلنے پر مسابقتی آرڈیننس کے سیکشن چار (اے) کی خلاف ورزی کی مرتکب پائی گئی۔

گزشتہ سال چھ  شوگر مل مالکان نے 53 ارب روپے کا منافع کمایا۔ فوٹو اے ایف پی

اس سلسلے میں کمیشن نے 23 اکتوبر 2009 کو پی ایس ایم اے کو قیمت فکس کرنے کے الزام میں اظہار وجوہ کا نوٹس بھی جاری کیا تاہم شوگر ملوں نے سندھ ہائی کورٹ سے حکم امتناہی حاصل کر لیا جو اب تک برقرار ہے۔
اس کے بعد گیارہ سال گزر گئے ہیں مگر مسابقتی کمیشن نے شوگر ملوں کے ایکے اور قیمتوں کی من مانی پر اب تک کوئی ایکشن نہیں لیا۔
تاہم کمیشن نے سال 2018 میں چینی کی صنعت کے حوالے سے حکومت کو اپنی رائے میں سفارش کی تھی کہ گنے کی امدادی قیمت مقرر نہ کی جائے سوائے اس صورتحال کے کہ خوارک کی قلت کا خدشہ ہو۔
اس کے علاوہ اس نے 2009 کی سفارش کو دہرایا کہ امدادی قیمت کہیں کپاس اور دیگر ضروری اجناس کو مجبور نہ کر دے کہ وہ بھی گنا ہی کاشت کریں اور اس طرح نہ صرف ملک میں کپڑے کی صنعت کپاس سے محروم ہو جائے بلکہ گنے کے کاشتکار بھی پیداوار زیادہ ہونے کی وجہ سے ملوں کے استحصال کا شکار ہو جائیں۔
کمیشن کے مطابق چینی کی درآمد اور برآمد کھول کر قیمتوں میں توازن لایا جا سکتا ہے۔
کمیشن کے ایک ترجمان  اسفند یار میر نے اردو نیوز کے رابطہ کرنے پر بتایا کہ مسابقتی کمیشن حکومت کی ہدایت کی روشنی میں چینی کی قیمتوں کے حوالے سے اپنے قوانین کے تحت کاروائی کو آگے بڑھائے گا۔ یاد رہے کہ اثاثہ جات ریکوری یونٹ کے سربراہ شہزاد اکبر نے معاملہ مسابقتی کمیشن کو بھی بھیجنے کا اعلان کیا تھا۔

شیئر: